مولانا آ نہیں رہا آ رہے ہیں

میرا جو بھی سیاسی نظریہ ہو اس سے قطع نظر کبھی یہ چھپانے کی کوشش نہیں کی کہ میں حضرت مولانا فضل الرحمان مدظلہ کی شخصیت و سیاست کا کتنا بڑا پرستار ہوں۔ اس بابت چند برس پہلے بھی میں نے جو لکھا آج بھی اس پر قائم ہوں کہ قبل از مولانا سیاست برائے سیاست ہوا کرتی تھی مگر مولانا نے اسے فائن آرٹ میں بدل دیا اور اب لگ بھگ ہر سیاستداں کشادہ دل مولانا کے حوضِ سیاست سے بقدرِ ظرف بالواسطہ یا بلاواسطہ جتنے جرعے بھر سکتا ہے بھر رہا ہے۔ جب میں کہتا ہوں کہ مولانا نے کھردری سیاست کو فائن آرٹ میں بدل دیا تو یہ کوئی تعلی یا ہوائی یا محض پرستارانہ بات نہیں ہے۔ بقول کسی مہان لکھاری کے دنیا ایک اسٹیج ہے جس پر ہم سب اپنا اپنا طے شدہ کردار ادا کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ اسٹیج پر لگنے والے سیٹ پر ہر ایکٹ اور سین کی ضرورت کے اعتبار سے کچھ اشیا رکھی جاتی ہیں مثلاً میز کرسی ، گلدان، چھڑی ، کتاب، لاٹھی ، برتن وغیرہ۔ ان اشیا کو تھیٹر کی زبان میں پروپس کہا جاتا ہے۔ پروپس کسی اداکار کو اس کے مخصوص کردار کی ادائیگی ، نشست و برخواست چلت پھرت اور حرکات و سکنات میں مدد دینے کے لیے ہوتے ہیں۔

اگر ان میں سے ایک پروپ بھی کم ہو جائے تو بہت سے اداکار گڑبڑا جاتے ہیں اور تماشائیوں کی فقرے بازی کے نشانے پر آ جاتے ہیں۔ اگر دنیا ایک اسٹیج ہے جس پر زندگی کا ڈرامہ کھیلا جا رہا ہے تو سیاست بھی اس اسٹیج سے باہر نہیں ہو سکتی۔تھیٹر کی بنیادی تعریف یہ ہے کہ پرفارمنس کے لیے صرف تین چیزیں درکار ہیں۔جگہ یعنی اسٹیج، ایک اداکار اور ایک تماشائی۔ اس تعریف کی روشنی میں اگر دیگران اور مولانا کا موازنہ کیا جائے تو باقیوں میں سے اکثریت کو نہ صرف بنا بنایا اسٹیج ، پروپس بلکہ تماشائیوں کی ایک بڑی تعداد درکار ہے۔ مگر مولانا کی فنی عظمت یہ ہے کہ انھیں صرف اسٹیج درکار ہے۔ وہ جب اسٹیج پر نمودار ہوتے ہیں تو الفاظ اور ان کی ادائی پروپس میں بدل جاتے ہیں اور مجمع خود بخود پیدا ہوتا چلا جاتا ہے اور اسٹیج پر کھڑے باقی کردار ایکسٹراز میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور فضا مولانا آرہا ہے کہ نعروں اور تالیوں سے معمور ہو جاتی ہے۔

مولانا کی فنی عظمت کا تازہ ثبوت یہ ہے کہ وہ تمام فن کار جو پارلیمنٹ کے اسٹیج پر عددی اعتبار سے چھائے ہوئے ہیں۔ انھوں نے اس امر کے باوجود کہ مولانا موجودہ پارلیمانی اسٹیج کا حصہ نہیں اپنی قیادت کے لیے مولانا کا انتخاب کیا ہے۔کیونکہ جتنا دینی و دنیاوی تجربہ ، زیرک نگاہ اور فنی باریکیوں کی سمجھ مولانا کے پاس ہے کسی کے پلے نہیں۔ مولانا اس وقت جس اتحاد کی قیادت کر رہے ہیں اس میں دو بڑی ’’خاندانی جماعتیں‘‘ بھی شامل ہیں۔ کہنے کو دونوں خاندانی جماعتوں کا اقتداری تجربہ اور محلاتی سمجھ کسی بھی جماعت سے زیادہ ہے۔ مگر ان میں سے کسی کے پاس مولانا والی بات نہیں۔ بظاہر عددی اعتبار سے مولانا کبھی بھی اپنے تئیں اقتدار میں آنے کی پوزیشن میں نہیں رہے مگر مولانا نے ہر دور میں اپنی بھاری بھرکم شخصیت کو اس آخری باٹ کی طرح استعمال کیا جو جس پلڑے میں بھی ڈل جائے اس کا وزن پورا ہو جاتا ہے اور دوسرا پلڑا ہوا میں لہرانے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتا۔

یہ ملک گزشتہ پچاس برس سے بالخصوص خاندانی سیاست کا اسیر ہے اور نہ جانے آنے والے کتنے برس تک یونہی رہے۔ مولانا کی دوررس نگاہی سے یہ راز کبھی بھی اوجھل نہیں رہا۔ اگرچہ مولانا طبعاً نظریاتی شخصیت ہیں مگر سیاست میں چونکہ سکہِ رائج الوقت خاندانیت ہی ہے لہذا بہ امرِمجبوری مولانا کو بھی یہ سکہ استعمال کرنا پڑ رہا ہے۔ جیسے آپ اپنی جماعت کے مرکزی سربراہ ہیں۔ آپ کے بھائی مولانا عطا الرحمان اسی جماعت کے صوبائی (کے پی کے) امیر ہیں۔ آپ کے دوسرے بھائی مولانا لطف الرحمان رکن ِصوبائی اسمبلی (کے پی کے) ہیں۔ آپ کے ایک اور بھائی عبید الرحمان جماعت کے ضلعی امیر ( ڈیرہ اسماعیل خان ) اور مہتمم جامعہ شریعہ ڈی آئی خان ہیں۔ آپ کے ایک اور بھائی ضیا الرحمان بیوروکریٹ ہیں۔آپ کے صاحبزادے اسعد محمود رکنِ قومی اسمبلی ہیں۔

بہت سے حاسد اس خاندانی انتظام پر چیں بہ جبیں رہتے ہیں۔ مگر حاسدوں کا پیٹ صرف جہنم کی آگ ہی بھر سکتی ہے۔ ان لوگوں کو یہ ذرا سی بات بھی سمجھ میں نہیں آتی کہ آپ جتنے بھی نظریاتی و اصولی ہوں۔ بازار میں کام تو سکہ رائج الوقت سے ہی چلے گا۔ ویسے بھی اول خویش بعد درویش کی کہاوت مولانا نے توایجاد نہیں کی۔ یہ تو ہمارے پرکھوں کی دین ہے۔ ایسا ریاستی جہاز جس کے بیشتر مسافر خاندانی سیاست کے ہی اسیر ہوں اگر اس جہاز کا کپتان ہی اس سے بے بہرہ ہو اور اسے خاندانی سیاست کی الف ب کا بھی نہ پتہ ہو تو سوچیے اس جہاز کا کیا ہو گا۔ مولانا کے فن ِ سیاست و فضائل پر بہت بات ہو سکتی ہے۔ مگر میرا دھیان ایک اور خبر میں بھی جا اٹکا ہے۔ مفتی منیب الرحمان کو رویت ہلال کمیٹی کی سربراہی سے تئیس برس بعد سبکدوش کر دیا گیا۔ میں سوچ رہا ہوں کہ جس ارسطو نے بھی یہ فیصلہ کیا اس نے کیا سوچ کے کیا۔

اگر چاند کروڑوں برس سے چمک رہا ہے تو مفتی صاحب کے تئیس برس کیوں کسی کی آنکھوں میں کھٹک گئے۔ اگلے رمضان کا چاند جب مفتی صاحب کو نہیں دیکھ پائے گا تو سوچیے اس پر کیا گذرے گی۔ مگر مفتی صاحب کو یوں اچانک ہٹایا جانا مہنگا پڑے گا۔ آپ نے ہٹتے ہی تحریکِ تحفظ مسجد و مدارس کے قیام کا اعلان کر دیا ہے۔ آپ نے مطالبہ کیا ہے کہ پارلیمنٹ نے بین الاقوامی طاغوتی قوتوں کے دباؤ پر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (فیٹف) کو خوش کرنے کے لیے جو قانون سازی کی ہے نیز اسلام آباد کیپیٹل ٹیرٹری وقف بل منظور کیا ہے۔ ان دونوں قوانین کی دینی حلقے سختی سے مزاحمت کریں گے۔ ہم مدارس اور مذہبی آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ جے یو آئی ف کے سیکریٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری نے بھی مفتی صاحب کے موقف کی بھرپور تائید کی ہے اور دونوں قوانین کو خلافِ شریعت قرار دیا ہے۔ اگرچہ مفتی صاحب رکنِ پارلیمان نہیں ہیں مگر رکنِ پارلیمان تو مولانا فضل الرحمان بھی نہیں ہیں۔ میرا نہیں خیال کہ مفتی منیب الرحمان کا تازہ مطالبہ رویت ہلال کمیٹی سے سبکدوشی کا ردِعمل ہے۔ یا مولانا فضل الرحمان کی جانب سے عمران خان کے استعفی کے مطالبے کا تعلق کاروبارِ ریاست سے مولانا کی دوری کے سبب ہے۔ حق بات کے لیے کسی کمیٹی یا پارلیمنٹ کا حصہ ہونا ضروری تو نہیں۔

وسعت اللہ خان

بشکریہ ایکسپریس نیوز

تحفظ نسواں ایکٹ ۔ غیر ضروری قانون

بات سادہ تو یہی ہے کہ تحفظ نسواں ایکٹ غیر ضروری تھا۔ ابھی اس کی فوری ضرورت نہیں تھی۔ یہ کوئی فوری نوعیت کی قانون سازی نہیں تھی۔ اس سے زیادہ کئی اہم معاملات زیر التوا ہیں ۔ جس پر فوری قانون سازی کی ضرورت ہے۔ فوری انصاف کے لئے بہتر قانون سازی کی جا سکتی تھی۔ لیکن تحفظ نسواں ایکٹ شاید اتنا ضروری نہیں تھا۔

خواتین پر تشدد کی کوئی بھی حمایت نہیں کر سکتا۔ جولوگ تحفظ نسواں ایکٹ کی مخالفت کر رہے ہیں۔ وہ بھی خواتین پر کسی بھی قسم کے تشدد کی حمایت نہیں کر سکتے۔ لیکن ہمارے ملک میں جب خواتین کو مغرب کی سطح کے حقوق دینے کی کوشش کی جا تی ہے تو مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں مغرب نواز این جی اوز خواتین کے حقوق کے معاملہ کو ایک ایسے انداز میں لیتی ہیں۔ جو شاید ہمارے معاشرتی سیٹ اپ سے مطابقت نہیں رکھتا۔
اس ضمن میں مختاراں مائی کیس ایک عمدہ مثال ہے۔ مختاراں مائی کیس کو ایک این جی او نے اٹھایا۔ سب این جی اوز نے اس کو اپنا لیا۔ مختاراں مائی کو عالمی سطح پر غیر ضروری شہرت ملی۔ مظلومیت کی ایک داستان بن گئی۔ اقوام متحدہ میں خطاب کے لئے بلا لیا گیا۔ نیو یارک سٹاک ایکسچینج میں کاروبار کے آغاز کے لئے گھنٹی بجانے کا اعزاز دینے کے لئے بلا لیا گیا۔ سپین میں خواتین کی عالمی کانفرنس کی صدارت کے لئے بلا لیا گیا۔ مختاراں مائی پاکستان کی پہچان بن گئی۔ جیسے کہا جا رہا ہے کہ آجکل شرمین عبید دو آسکر لیکر پاکستان کی پہچان بن گئی ہے۔ لیکن کیا ہوا۔ ساری کہانی جھوٹی نکلی۔ پہلے لاہور ہائی کورٹ میں جھوٹی نکلی۔ پھر سپریم کورٹ میں جھوٹی نکلی۔ اور آج مختاراں مائی ایک گمنام داستان ہیں۔

اسی طرح جب بھی مغرب کا خواتین کے حقوق کے حوالہ سے ایجنڈافالو کرنے کی کوشش کی گئی ہے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ اگر تحفظ نسواں ایکٹ کی بجائے یہ قانون سازی کی جاتی کہ جو لڑکیاں ڈاکٹر ، انجینئر، یا کوئی اور پروفیشنل ڈگری کر لیتی ہیں۔ ان کے لئے اس شعبہ میں دس سال کام کرنا لازمی قرار دیا جائے۔ پاکستان اور بالخصوص پنجاب میں میڈیکل کالجوں میں لڑکیوں کی شرح لڑکوں سے کئی گنا زیادہ ہے۔

 پنجاب میں لڑکیاں بہت بڑی تعداد میں ہر سال ڈاکٹر بن رہی ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان لڑکیوں کی اکثریت ڈگری لینے کے بعد گھر بیٹھ جاتی ہے۔ یہ اعداد وشمار بھی موجود ہیں کام نہ کرنے والی ان لڑکیوں میں بھاری اکثریت ان امیر گھروں کی لڑکیوں کی ہے جن کے والدین کا تعلق اپر مڈل کلاس سے ہے۔غریب اور لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کی بڑی تعداد ڈاکٹر بننے کے بعد کام کرتی ہے۔ اس ضمن میں وفاقی حکومت نے پنجاب حکومت کو باقاعدہ یہ تجویز دی ہے کہ وہ میڈیکل کالجوں میں لڑکوں کی سیٹیں مختص کرے کیونکہ لڑکے ڈاکٹر بننے کے بعد کام کرتے ہیں۔
 قانون سازی تو یہ کرنی چاہئے کہ ڈاکٹر بننے والی لڑکیاں دور دراز کے دیہات و قصبوں میں جا کر کام کریں تا کہ پاکستان میں زچہ و بچہ کی اموات کی شرح پر قابو پا یا جا سکے۔ قانون سازی تو اس پر ہونی چاہئے کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیاں دور دراز کے سکولوں میں جا کر کام کریں تا کہ ہر لڑکی کو تعلیم مل سکے۔ لیکن شاید مغرب کو اس قانون سازی کی سمجھ بھی نہ ہو کیونکہ یہ اس کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ مغرب کے مسائل نہیں ہیں۔ وہاں خواتین پر تشدد ، بچوں پر تشدد اس لئے بڑے مسائل ہیں کیونکہ وہاں شراب عام ہے۔ لوگ گھروں میں رات کو شراب پیتے ہیں اور پی کر تشدد کرنا ایک معمول کی بات ہے۔ اس لئے مغرب میں خواتین اور بچوں پرتشدد ایک اہم معاشرتی مسئلہ ہے۔
مغرب اور مشرق کی خاندانی روایات میں بھی بہت فرق ہے۔ خاندانی نظام میں بھی فرق ہے۔ شادی کے بندھن میں بھی فرق ہے۔ بچوں کی تربیت کے طریقہ کار میں فرق ہے۔ پھر قانون سازی ایک جیسی کیسے ہو سکتی ہے؟ بہر حال پنجاب حکومت کو یہ بات ماننی چاہئے کہ اس بل کے حوالہ سے عوامی رائے عامہ بھی اتنی مثبت نہیں ہے جتنی سمجھی جا رہی ہے۔
جہاں تک دینی جماعتوں کا تعلق ہے ۔ تو ان کا اس حوالہ سے موقف ٹھیک ہے۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ تحفظ نسواں ایکٹ نے دینی جماعتوں کو ایک ایجنڈہ پر اکٹھے ہونے کا سنہری موقع فراہم کر دیا ہے۔ اس ضمن میں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے اس موقع کو نہایت خاموشی سے متحدہ مجلس عمل کی بحالی کے لئے بھی استعمال کر لیا ہے۔ جماعت اسلامی کے ہیڈ کوارٹر منصورہ میں تحفظ نسواں ایکٹ کے خلاف ہونے والے اجلاس نے دراصل متحدہ مجلس عمل کی جماعتوں کو ایک عرصہ بعد دوبارہ اکٹھے ہونے کا موقع دیا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ جماعت الدعوۃ کے امیر حافظ سعید صرف اس میں ایک اضافہ تھے۔ لیکن ان کو بھی حکومت نے اس قدر دیوار کے ساتھ لگا دیا ہوا ہے کہ شاید وہ بھی اب متحدہ مجلس عمل میں شامل ہونے کا سوچ ہی لیں۔
مولانا فضل الرحمٰن منصورہ پہنچ گئے۔ حالانکہ قاضی حسین احمد کی جانب سے متحدہ مجلس توڑنے اور سید منور حسن کی جانب سے متحدہ مجلس کے خلاف سخت ترین موقف کے بعد مولانا فضل الرحمٰن کا منصورہ پہنچنا بھی ایک سیاسی معرکہ ہی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن پر منصورہ کے دروازے کھلنے کے بعد متحدہ مجلس عمل کے بھی بند دروازے کھل گئے ہیں۔ مولانا سمیع الحق بھی پہنچ گئے ہیں اور پروفیسر ساجد میر بھی پہنچ گئے ہیں۔ پرو فیسر میر کا بھی مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اتحاد ختم ہی ہو رہا ہے۔ جب سے انہوں نے پرویز رشید کے خلاف خطرناک بیان بازی کی ہے۔ وہ کنارے لگ چکے ہیں۔ مجلس وحدت مسلمین اہل تشیع کی نمائندگی کے لئے پہنچ گئی ہے۔ اور مولانا شاہ احمد نوارنی کے بیٹے بھی پہنچ گئے ہیں۔ سب پہنچ گئے ہیں۔
حکومت نے دینی جماعتوں کو حلوہ فراہم کر دیا ہے۔ اس لئے وہ حلوہ کے گرد جمع ہو گئی ہیں۔ تحفظ نسواں ایکٹ کے خلاف تحریک کا اعلان بھی کر دیا گیا ہے۔ مدرسوں پر پہلے ہی سختی ہے۔ وہ بھی ساتھ ہو نگے۔ اس لئے دینی جماعتیں سمجھ رہی ہیں کہ یہ ان کے پاس ایک سنہری موقع ہے ۔ اور وہ اس سے بھر پور فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ حکومت نے یہ کہہ کر کہ وہ اس ایکٹ میں ترامیم کرنے کے لئے تیار ہے۔ پسپائی شروع کر دی ہے۔ لیکن شاید دینی جماعتوں کو علم ہو گیا ہے کہ حکومت پسپائی اختیار کر رہی ہے۔ اس لئے وہ مکمل سرنڈر سے کم نہیں مانیں گی۔ شاید اس بار مولانا فضل الرحمٰن بھی حکومت سے زیادہ متحدہ مجلس عمل کی بحالی کو ترجیح دیں۔ کیونکہ انہیں بھی ماضی سے سبق سیکھنا ہو گا۔
مزمل سہروردی

Party Positions and Election Results in Pakistan Election 2013

 

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>

<!–

–>


Contesting Parties
National
Assembly
Sindh
Assembly
Punjab
Assembly
KPK
Assembly
Balochistan
Assembly
FATA
Assembly
Summary 180/272 34/130 135/297 76/99 19/51
PML(N) 87 1 94 10 5
PTI 27 0 11 25 0
PPPP 23 24 2 2 0
Independent 18 0 19 10 4
Pashtoonkhwa Milli Awami Party 9 0 0 0 3
MQM 3 6 0 0 0
JI 3 0 1 7 0
PML(Q) 2 0 2 0 1
JUI(F) 2 0 0 9 0
PML-F 1 2 0 5 1
Balochistan National Party (Awami) 1 0 2 0 1
National Peoples Party 1 0 0 0 0
Pakistan Muslim League 1 0 0 0 0
Sindh United Party 1 0 0 0 0
Qomi Watan Party 1 0 0 1 0
Pakistan Muslim League(Z) 0 0 4 0 0
QWP 0 0 0 4 0
ANP 0 0 0 2 1
Qaumi Jamhoori Party 0 0 0 1 0
Afghan National Party 0 0 0 0 0
Allah-o-Akbar Tehreek 0 0 0 0 0
Awami Himayat Tehreek Pakistan 0 0 0 0 0
Awami Jamhuri Ittehad Pakistan 0 0 0 0 0
Awami Justice Party 0 0 0 0 0
Awami Muslim League Pakistan 0 0 0 0 0
Awami Party (Pakistan) 0 0 0 0 0
Awami Qiadat Party 0 0 0 0 0
Awami Tehreek Bahali-e-Soba Bahawalpur Pakistan 0 0 0 0 0
Azad Pakistan Party 0 0 0 0 0
Azmat-e-Islam Movement 0 0 0 0 0
Balochistan National Congress 0 0 0 0 0
Balochistan National Democratic Party 0 0 0 0 0
Balochistan National Movement 0 0 0 0 0
Balochistan National Party 0 0 0 0 0
Bedar Pakistan 0 0 0 0 0
Christian Progressive Movement 0 0 0 0 0
General Pervez Musharaf Himayat Tehreek 0 0 0 0 0
Ghareeb Awam Party 0 0 0 0 0
Hazara Awami Ittehad 0 0 0 0 0
Hazara Democratic Party 0 0 0 0 0
Hazara Qaumi Mahaz 0 0 0 0 0
Insaanyat Party (Pakistan) 0 0 0 0 0
Islami Siasi Tehreek 0 0 0 0 0
Islami Tehreek Pakistan 0 0 0 0 0
Istiqlal Party 0 0 0 0 0
Ittehad Milli Hazara 0 0 0 0 0
Jamaat Ahle Hadith Pakistan ® 0 0 0 0 0
Jamait Ahle-Hadith Pakistan (Elahi Zaheer) 0 0 0 0 0
Jamhoori Wattan Party 0 0 0 0 0
Jamiat Ulama-e-Islam (S) 0 0 0 0 0
Jamiat Ulama-e-Pakistan (N) 0 0 0 0 0
Jamiat Ulema-e-Pakistan (Niazi) 0 0 0 0 0
Jamiat Ulema-e-Pakistan (Nifaz-e-Shariat) 0 0 0 0 0
Jamiat–e-Mushaikh Pakistan 0 0 0 0 0
Jamote Qaumi Movement 0 0 0 0 0
Jeev-e-Pakistan Party 0 0 0 0 0
Jumiat Ulma-e-Islam(Nazryati), Pakistan 0 0 0 0 0
Justice and Development Party Pakistan 0 0 0 0 0
Kakar Jamhoori Party Pakistan 0 0 0 0 0
Karwan-i-Millat Pakistan 0 0 0 0 0
Labour Party Pakistan 0 0 0 0 0
Lower Middle Party 0 0 0 0 0
Markazi Jamaat Ahle Hadieth (Zubair) 0 0 0 0 0
Markazi Jamiat Ahle Hadith (Lakhwi Group) 0 0 0 0 0
Markazi Jamiat Al- Hadith (Sajid Mir) 0 0 0 0 0
Markazi Jamiat Mushaikh Pakistan 0 0 0 0 0
Markazi Jamiat Ulema-e-Pakistan (FK) 0 0 0 0 0
Masih Awami Party 0 0 0 0 0
Millat Party 0 0 0 0 0
Mohajir Ittehad Tehrik 0 0 0 0 0
Mohajir Kashmir Movement 0 0 0 0 0
Mohajir Qaumi Movement Pakistan 0 0 0 0 0
Mustaqbal Pakistan 0 0 0 0 0
MMA 0 0 0 0 0
NATIONAL ALLIANCE 0 0 0 0 0
National Awami Party 0 0 0 0 0
National Party 0 0 0 0 3
National Peoples Party Workers Group 0 0 0 0 0
National Workers Party 0 0 0 0 0
Nizam-e-Mustafa Party 0 0 0 0 0
Pak Muslim Alliance 0 0 0 0 0
Pak Wattan Party 0 0 0 0 0
Pakhtoonkhwa Qaumi Party 0 0 0 0 0
Pakistan Aman Party 0 0 0 0 0
Pakistan Awami Party 0 0 0 0 0
Pakistan Awami Quwat Party 0 0 0 0 0
PAT 0 0 0 0 0
Pakistan Awami Tehrik-e-Inqilab 0 0 0 0 0
Pakistan Bachao Party 0 0 0 0 0
Pakistan Basic Rights Movement 0 0 0 0 0
Pakistan Brohi Party 0 0 0 0 0
Pakistan Citizen Movement 0 0 0 0 0
Pakistan Democratic League (PDL) 0 0 0 0 0
Pakistan Democratic Party 0 0 0 0 0
Pakistan Development Party 0 0 0 0 0
Pakistan Dharti Maan Party 0 0 0 0 0
Pakistan Fatima Jinnah Muslim League 0 0 0 0 0
Pakistan Freedom Party 0 0 0 0 0
Pakistan Gharib Party 0 0 0 0 0
Pakistan Green Party 0 0 0 0 0
Pakistan Hum Wattan Party 0 0 0 0 0
Pakistan Ittehad Tehreek 0 0 0 0 0
Pakistan Ittehad Yaqeen Tanzeem Party 0 0 0 0 0
Pakistan Jumhuri Aman Party 0 0 0 0 0
Pakistan Maqsad Himayet Tehrik 0 0 0 0 0
Pakistan Mazdoor Kissan Party 0 0 0 0 0
Pakistan Meo Ittihad 0 0 0 0 0
Pakistan Motherland Party 0 0 0 0 0
Pakistan Muhafiz Party 0 0 0 0 0
Pakistan Muslim League (J) 0 0 0 0 0
Pakistan Muslim League (Jinnah) 0 0 0 0 0
Pakistan Muslim League (Qasim) 0 0 0 0 0
Pakistan Muslim League (Qayyum Group) 0 0 0 0 0
Pakistan Muslim League (Sher-e-Bangal) 0 0 0 0 0
Pakistan Muslim League ‘H’ Haqiqi 0 0 0 0 0
Pakistan National Muslim League 0 0 0 0 0
Pakistan Patriotic Movement 0 0 0 0 0
Pakistan Peoples Movement 0 0 0 0 0
Pakistan Peoples Party (Shaheed Bhutto) 0 0 0 0 0
PPP (S) 0 0 0 0 0
Pakistan Peoples Party Parliamentarians (Patriots) 0 0 0 0 0
Pakistan Progressive Party 0 0 0 0 0
Pakistan Progressive Party (Suraya Farman Group) 0 0 0 0 0
Pakistan Qaumi League 0 0 0 0 0
Pakistan Qaumi Party 0 0 0 0 0
Pakistan Qaumi Tehrik-E-Azadi 0 0 0 0 0
Pakistan Sariaki Party 0 0 0 0 0
Pakistan Shia Political Party 0 0 0 0 0
Pakistan Social Democratic Party 0 0 0 0 0
Pakistan Social Justice Party 0 0 0 0 0
Pakistan Tehreek-e-Paigham 0 0 0 0 0
Pakistan Tehrek-e-Inqalab 0 0 0 0 0
Pakistan Workers Party 0 0 0 0 0
Pakistan Young Blood Christian League 0 0 0 0 0
PakistanOverseas League 0 0 0 0 0
Pasban 0 0 0 0 0
Pashtoon Quomi Tehreek 0 0 0 0 0
Peoples Democratic League 0 0 0 0 0
Progressive Democratic Party 0 0 0 0 0
Punjab National Front 0 0 0 0 0
Punjab National Party 0 0 0 0 0
Qaumi Inqilab Party 0 0 0 0 0
Qaumi Tahaffaz Party 0 0 0 0 0
Roshan Pakistan Party 0 0 0 0 0
Salam Pakistan Party 0 0 0 0 0
Seraiki Sooba Movement Pakistan 0 0 0 0 0
Shan-e-Pakistan Party 0 0 0 0 0
Sindh Democratic Alliance 0 0 0 0 0
Sindh National Front 0 0 0 0 0
Sindh Taraqi Passand Party (STP) 0 0 0 0 0
Sindh Urban-Rural Alliance 0 0 0 0 0
Sunni Tehreek 0 0 0 0 0
Swabi Qaumi Mahaz 0 0 0 0 0
Tameer-e-Pakistan Party 0 0 0 0 0
Tehreek Jamhoriat Pakistan 0 0 0 0 0
Tehreek Tabdili Nizam Pakistan 0 0 0 0 0
Tehreek-e-Hussainia Pakistan 0 0 0 0 0
Tehreek-e-Suba Hazara 0 0 0 0 0
Tehreek-e-Wafaq Pakistan 0 0 0 0 0
Tehrik-e-Istaqlal (Rehmat Khan Wardag) 0 0 0 0 0
Pakistan Basic Rights Movement 0 0 0 0 0
Tehrik-e-Masawaat 0 0 0 0 0
APML 0 0 0 0 0
Awami Workers Party 0 0 0 0 0
Mutahida Deeni Mahaz 0 1 0 0 0
Mustaqbil Pakistan 0 0 0 0 0
Pakistan Human Rights 0 0 0 0 0
Tehreek e Tahufuze pakistan 0 0 0 0 0
Pakistan Justice Party 0 0 0 0 0
Sunni Itehad Council 0 0 0 0 0
Majlis wehdat ul Muslimoon 0 0 0 0 0
Pakistan Tehreek e tahful e Pakistan 0 0 0 0 0
Sindh Dost Ittehad 0 0 0 0 0
Pakistan Falah Party 0 0 0 0 0
All Pakistan Youth Working Party 0 0 0 0 0
Tehreek e Ittehad Ummat Pakistan 0 0 0 0 0
Jannat Pakistan Party 0 0 0 0 0
Tehreek Istehkaam Pakistan 0 0 0 0 0
Qaumee Awami Tehreek 0 0 0 0 0
Pakistan Conservative Party 0 0 0 0 0
Islami Inqilab Party 0 0 0 0 0
Mutahida Qabaili Party 0 0 0 0 0
Aap Janab Sarkar Party 0 0 0 0 0
Pakistan Muslim League (Council) 0 0 0 0 0
Pakistan Muhammadi Party 0 0 0 0 0
Communist Party of Pakistan 0 0 0 0 0
Istehkam-e-Pakistan Movement 0 0 0 0 0
All Pakistan Bayrozgar Party 0 0 0 0 0
Muttahida watan nojawanan-e- anjuman 0 0 0 0 0
Pakistan Kisan Itihad 0 0 0 0 0
Pakistan Muhajir League 0 0 0 0 0
Jahmoriyat Watan Party 0 0 0 0 0
Tehreeq Pasmanda Awaam Party 0 0 0 0 0
Mini Kursee Action Party Pakistan 0 0 0 0 0
Mutahida Baloch Movement Pakistan 0 0 0 0 0
Islamic Republican Party 0 0 0 0 0
Jamat Al Kalam Allah Farman Rasool 0 0 0 0 0
Saikistan Quami Itehaq 0 0 0 0 0
Pakistan Awami Inqalab 0 0 0 0 0
Pakistan Muslim League (Safdar) 0 0 0 0 0
National Democratic Party 0 0 0 0 0
Summary 180/272 34/130 135/297 76/99 19/51
All results are subject to change by ECP.

Party Positions and Election Results in Pakistan Election 2013
 

Enhanced by Zemanta