شہدائے پولیس کی قربانیاں بھی کسی سے کم نہیں

جیسا کہ پاک افواج کے جوان سرحدوں کی حفاظت اور ملک دشمن عناصر سے جنگ کے دوران جام شہادت نوش کر کے تاریخ میں امر ہو جاتے ہیں، اسی طرح وطن عزیز کے اندر عوام کے جان، مال اور عزت وآبرو کے تحفظ کے لیے قائم اداروں میں سرِفہرست محکمہ پولیس کا ادارہ ہے جو ملک بھر میں دہشت گردی، چوری، ڈکیتی، اغوا برائے تاوان اور دیگر سنگین نوعیت کے جرائم کے خلاف برسرِ پیکار ہے۔ پاک فوج کے جوان سرحدوں پر ملک کی حفاظت کرتے ہیں تو پولیس اور دیگر سکیورٹی فورسز ملک کے اندر موجود، دشمنوں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں مصروف عمل رہتے ہیں۔ قانون کی بالادستی ہو یا امن و امان کا قیام، دہشت گردی کا خاتمہ ہو یا سماج دشمن عناصر سے مقابلہ، ہر محاذ پر پولیس فورس کے بہادر جوان اپنی ذمہ داریوں سے احسن طور پر عہدہ براء ہوتے ہوئے جام شہادت نوش کرتے آئے ہیں۔

شہدائے پولیس کی ان عظیم قربانیوں کی یاد میں نیشنل پولیس بیورو پاکستان کی جانب سے ہر سال چار اگست کا دن یوم شہدائے پولیس کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یوم شہدائے پولیس کے منانے کا مقصد قوم کے ان بہادر سپوتوں کی شجاعت کو سلام پیش کرنا اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ ان کی یاد میں بڑی تقاریب کا انعقاد کرنا ہے جس میں شہداء کی ارواح کو ایصال ثواب کےلیے فاتحہ خوانی کی جاتی ہے، شہداء کی قبروں پر پھولوں کی چادریں چڑھائی جاتی ہیں اور محکمہ پولیس کے شہداء کو شاندار انداز میں خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ چاروں صوبوں کی پولیس اور اسپیشل فورسز کی جانب سے صوبائی، ریجنل اور ضلعی ہیڈ کوارٹرز میں سیمینارز کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے جس میں پولیس افسران، اسپیشل برانچ، سی ٹی ڈی، ایف آر پی، ایلیٹ فورس، ٹرنینگ اسٹاف اور ٹریفک پولیس سمیت ہر یونٹ کے افسران اور جوان، شہدائے پولیس کے لواحقین کے علاوہ مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے شہری کثیر تعداد میں شرکت کرتے ہیں۔

یوم شہدائے پولیس پر اس عزم کا اظہار کیا جاتا ہے کہ یہ صرف پولیس فورس کے نہیں بلکہ پوری قوم کے شہداء ہیں اور ہم اپنے شہداء کی قربانیوں کو بھولے نہیں اور نہ ہی کبھی بھولیں گے، ہمیں ان کی عظیم قربانیوں پر فخر ہے۔ نیشنل پولیس بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں دہشت گردی، ڈکیتی، اغوا برائے تاوان اور دیگر سنگین نوعیت کے جرائم میں ملوث عناصر سے لڑتے ہوئے ڈی آئی جی سے کانسٹیبل تک مختلف رینک کے 2600 سے زائد پولیس افسران نے شہادت کے رتبے پر فائز ہو کر بہادری کی ایک نئی داستان رقم اور محکمہ پولیس کی توقیر میں اضافہ کیا ہے۔

بلاشبہ شہریوں کے ساتھ جب کوئی حادثہ یا نا خوشگوار واقعہ پیش آتا ہے، تو مشکل کی اس گھڑی میں وہ پولیس کو ہی اپنی مدد کے لیے پکارتے ہیں، کیونکہ انہیں اس بات کا بخوبی علم ہے کہ پولیس ان کی مدد کو ضرور پہنچے گی۔ پولیس اہلکار چوبیس گھنٹے اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر عوام کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کی خاطر ہر طرح کے حالات میں مدد کو پہنچتے ہیں، موسم کی شدت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے خاص طور پر موسم گرما میں پچاس ڈگری درجہ حرارت میں بھی باوردی کانسٹیبل بلٹ پروف جیکٹ اور بھاری بھرکم گن اٹھائے فرائض کی ادائیگی کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن پولیس فورس کی بات کرتے وقت عوام کے ذہن میں فوراً منفی تاثر ابھرتا ہے، اور فوراً پولیس کے کرپٹ ہونے کے الفاظ رواں ہو جاتے ہیں۔ عوام ہو یا میڈیا، غرضیکہ ہر کوئی پولیس پر تنقید کرتا نظر آتا ہے، لیکن ان شکایات کے برعکس اگر پولیس کے اوقات کار کی طوالت اور ذمہ داریوں کو دیکھا جائے تو ہر ذی شعور کو اس بات کا اداراک ہے کہ پولیس جتنا سخت اور طویل ڈیوٹی کا کام کوئی اور محکمہ نہیں کرتا۔

کیا کبھی معاشرے کے کسی فرد نے فرض کی ادائیگی کے دوران ان اہلکاروں کے چہرے، اور ان کی آنکھوں میں چھپی حسرتوں کو پڑھنے کی کوشش کی ہے کہ عید جیسے تہوار پر ان کے بچے کتنی شدت سے ان کا انتظار کر رہے ہوں گے؟ کیا کبھی کسی نے یہ سوچا ہے کہ تفریحی مقامات پر جب بچے اپنے والدین کے ہمراہ سیرو تفریح میں مشغول ہوتے ہیں تو کچھ فاصلے پر ان کی سیکیورٹی کے فرائض ادا کرنے والا کانسٹیبل گھر جا کر اپنے بچوں کو کس طرح بہلاتا ہو گا ؟
تمام تر معاشرتی بے حسی، نفرت، تنقید، تمسخر اورشدید ترین نکتہ چینی کے باوجود پولیس فرائض کی ادائیگی میں دن رات مصروف عمل ہے۔ جبکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ماضی میں پاکستان پولیس کا نظام انحطاط کا شکار رہا ہے، اس کی بنیادی وجہ پولیس میں سیاسی مداخلت تھی۔ برسراقتدار افراد اپنے عہدے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے رہے جس سے پولیس عوام کو انصاف اور ریلیف فراہم کر نے کے اپنے اصل مقصد سے دور ہوتی چلی گئی۔

لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے پولیس سسٹم میں خاصی بہتری آئی ہے، محکمہ پولیس سے سیاسی مداخلت کا خاتمہ ہوا ہے اور اعلیٰ پولیس افسران نے اپنی ساری توجہ عوام کے پولیس پر اعتماد کو بحال کرنے پر مرکوز کی ہے، یہی وجہ ہے کہ ملک بھر میں سنگین وارداتوں کا گراف نیچے آیا ہے۔ پولیس سسٹم میں مزید بہتری کےلیے برسراقتدار طبقے، محنتی دیانت دار اور عوام دوست افسران کو ترقی دے کر اپنا موثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ کسی بھی ملک میں بڑی جنگوں اور معاملات میں نہ تو پولیس کو ملوث کیا جاتا ہے اور نہ ہی ان سے نپٹنے کی ذمہ داری پولیس کی ہوتی ہے، لیکن یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم ایک ایسی جنگ میں ملوث ہو گئے جو ہماری تھی ہی نہیں۔ غلط فیصلوں اور غلط لالچ سے یہ پرائی جنگ ہمارے آنگن کی جنگ بن گئی اور اس میں سول آبادی بھی زد پر آگئی۔ اس گھمبیر صورتحال میں پولیس کو بھی اس میں شامل ہونا پڑا، کیونکہ اپنے شہریوں کی حفاظت کی ذمے داری تو ان کو نبھانا ہی تھی۔

ان حالات میں جب وطن عزیز میں دہشت گردی سے کوئی محفوظ نہ تھا، پولیس نے مسلح افواج اور دیگر فورسز کے ساتھ مل کر امن و امان کے قیام میں مثالی کردار ادا کیا، اس حوالے سے سب سے زیادہ قربانیاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے دیں جنہوں نے شہادت کا جھومر ماتھے پر سجا کر ملک و ملت اور عوام دشمنوں کے ناپاک عزائم کو ناکام بنایا ہے۔ یوم شہدائے پولیس درحقیقت پولیس اور عوام کے درمیان تعلقات کو مضبوط کرنے اور اشتراک عمل کو بڑھانے کا ایک سنہری موقع ہے جس سے بھر پور استفادہ وقت کی ضرورت ہے۔ حکومت کو آئندہ نسلوں کو پولیس کے شہداء کے کارناموں سے با خبر رکھنے کے لئے ٹیکسٹ بک بورڈز کے تحت چھپنے والی درسی کتابوں میں اسباق شامل کرنے پر غور کرنا چاہیے۔ جس طرح افواج پاکستان کے شہدا کے تذکرے سے ان کی یادیں روشن کی جا رہی ہیں، اسی طرح پولیس کے شہداء کی یاد بھی نئی نسل کے سامنے اجاگر کر کے یہ بات ان کے ذہنوں میں بٹھائی جا سکتی ہے کہ پولیس اہلکار بھی ملک و قوم کی خدمت کے جذبے سے سرشار اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف ہر لمحہ برسر پیکار رہتے ہیں۔ یوم شہدائے پولیس پر ہمیں شہدا ء کے اہل خانہ سے اظہار یکجہتی کرنا چاہیے اور ان کو اپنی خوشیوں میں شامل کرنے کا عہد کرنا چاہیے، کیونکہ ان کے پیاروں کی لازوال قربانیوں کی بدولت تمام شہری امن و سکون کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔

رانا اعجاز حسین چوہان

City govt seeks Pak Army help as rain wrecks havoc in Karachi

City government has sought Pakistan Army assistance to cope with the rain emergency after torrential rains flooded Karachi. Mechanized Engineering Corps of Pakistan Army has accepted the request made by Deputy Karachi Mayor Arshad Wohra. According to sources at Karachi Metropolitan Corporation machinery from Pakistan Army would be received soon for drainage of water accumulated on the roads. Heavy downpour lashed Karachi for the second straight day as major road and low-lying areas were inundated and the life in the metropolitan city almost thrown out of gear.
 According to details, North Nazimabad, F.B Area, Gulistan-e-Johar, Gulshan–e-Ibqal, Shah Faisal Colony, MA Jinnah Road, II Chandrigar Road, North Karachi, Shadman Town, Guslshan-e-Hadeed, Shah Latif Town, Malir and other areas received heavy rain. Meanwhile, many areas of Karachi plunged into darkness as dozens of K-Electric feeders tripped due to heavy rain. Heavy rains wreaked havoc in Karachi leaving five and several others critically injured as a result of electrocution in the early hours of Thursday .

عذیر بلوچ اور ناقابل تردید شواہد

عذیر بلوچ کو سیشن کورٹ نے اقدام قتل اور ڈکیتی کے الزام سے، 8 اپریل کو بری کر دیا۔ تعجب کی بات نہیں کہ اس مقدمے میں بھی استغاثہ عذیر بلوچ اور اس کے بھائی کے خلاف الزامات ثابت کرنے میں ’’ناکام‘‘ رہا۔ امریکی اپنے قانونِ جرم وسزا پر بہت نازاں ہیں لیکن وہ نظام بھی امریکا کے بدترین مافیا سربراہ الکپون پر الزامات ثابت نہیں کرسکا تھا۔ الکپون کمرۂ عدالت میں ، اپنے خلاف پیش ہونے والے گواہوں کو خوف سے کانپتے دیکھ کر، قہقہے لگاتا  اور انھیں نام لے کر پکارتا تھا۔ جان کے خوف سے یہ گواہ اپنے بیانات سے پھر جاتے۔ ایف بی آئی سے جب کچھ نہ بن  پڑا تو کپون کو ٹیکس چوری کے الزام میں جیل بھیجا گیا۔ قتل، بھتہ وصولی، ہتھیاروں کی اسمگلنگ، پولیس اور رینجرز پر حملوں سمیت 100 سے زاید مقدمات میں اعتراف جرم کرنے والے عذیر بلوچ کو سزا نہ ہونے سے ہمارے عدالتی نظام کے بارے میں کیا بہت کچھ عیاں نہیں ہو جاتا؟
عذیر بلوچ کے والد فیض بلوچ ایک ٹرانسپورٹر تھے۔ لیاری میں سرگرم جرائم پیشہ ارشد پپو نے تاوان کے لیے فیض بلوچ کا اغوا کیا اور بعد ازاں اسے قتل کر ڈالا۔ یہی واقعہ عذیر کو رحمن ڈکیت کے قریب لے آیا۔ 2009ء میں رحمن ڈکیت کی پولیس مقابلے میں ہلاکت کے بعد عذیر نے لیاری انڈر ولڈ میں اس خلاء کو بڑی حد تک پُر کر دیا۔ اس نے اپنے باپ کے قتل کا انتقام لیا، ایک ایک کر کے اپنے مخالفین کا خاتمہ کیا اور لیاری پر اپنی حکومت قائم کر لی۔ پیپلز پارٹی کے لیڈر عذیر بلوچ سے تعلقات کی پرُزور تردید کرتے ہیں لیکن پی پی کے ساتھ عذیر کے قریبی تعلقات ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ 2015ء کے اواخر میں ایک نجی ٹی وی چینل کی جانب سے جاری ہونے والی ویڈیو فوٹیج سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ پی پی کے کئی ممبران پارلیمنٹ کا عذیر بلوچ کے ساتھ تعلق ہے۔ عذیر بلوچ نے آصف زرداری کی ہمشیرہ، فریال تالپور کو بطور تحفہ قرآن مجید کا نسخہ پیش کیا۔
قائم علی شاہ نے 2013ء میں اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد شہلا رضا اور دیگر لیڈروں کے ہمراہ عذیر بلوچ سے ملاقات کی۔ یہ ملاقاتیں 2012ء اور 2013ء کے درمیان ہو رہی تھیں، جب پی پی حکومت کی جانب سے عذیر بلوچ  اور پیپلز امن کمیٹی کے دیگر دو کارندوں کے سر کی بیس لاکھ قیمت لگانے کا اعلان بغیر کوئی وجہ بتائے واپس لے لیا گیا تھا۔ اس وقت کے ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل اعجاز چوہدری(جو بعد ازاں لیفٹیننٹ جنرل اور کور کمانڈر کراچی ہوئے) 2012ء میں وزیر اعلیٰ کو عذیر بلوچ کے خلاف ناقابل تردید شواہد پیش کر چکے تھے۔ اعجاز چوہدری ہی نے پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی کی اتحادی حکومت کے جرائم پیشہ عناصر کو استعمال کرنے کے شواہد چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمد چوہدری کی عدالت میں پیش کیے تھے۔ جنرل اعجاز کو عدالت کی جانب سے ہدایت دی گئی تھی کہ یہ  ثبوت براہ راست عدالت میں پیش نہ کیا جائے بلکہ  ان کا مہر بند لفافہ  رجسٹرار آفس میں جمع کروا دیا جائے۔ یہ احکامات کیوں دیے گئے؟ اس کی وجوہ اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ ہی بتا سکتے ہیں۔
جب عذیر بلوچ کے مربی، صوبائی وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا نے زرداری سے راہیں جدا کیں تو پی پی حکومت نے بھی عذیر بلوچ سے فاصلے بڑھانا شروع کر دیے۔ اسی دوران 2013ء میں جرائم پیشہ عناصر کے خلاف لیاری میں آپریشن شروع کیا گیا اور عذیر بیرون ملک فرار ہو گیا۔ رینجرز نے عذیر بلوچ کو جنوری 2016ء میں گرفتار کیا۔ مجسٹریٹ کے سامنے اس نے 24اپریل 2016ء کو اعترافی بیان دیا۔ اپنے بیان میں انھوں نے آصف علی زرداری کے حوالے سے حیران کن انکشاف کیے۔ عذیر بلوچ نے یہ بھی دعوی کیا تھا کہ اسے پیپلز پارٹی کے دیگر رہنماؤں کے اعترافات کے مطابق  پی پی کے رہنما ذوالفقار مرزا، قادر پٹیل اور یوسف بلوچ مجرمانہ کارروائیوں میں معاونت کے لیے اس کی مرضی کے ایس ایچ او تعینات کیا کرتے تھے۔
اس نے ہر ماہ کروڑوں روپے بھتہ وصول کرنے کا اعتراف کیا۔ اس میں یہ بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ اس کا حصہ بعض حکام کو پہنچایا جاتا رہا۔ حکومت سندھ نے اس پر کیا کارروائی کی؟ یا وفاقی حکومت ہی نے  کوئی تردد کیا؟ کیا کوئی عدالت عظمی سے ’’گڈ گورننس‘‘ پرفکر مندی کی توقع رکھ سکتا ہے؟ بلوچستان میں بیرونی امداد سے خفیہ کارروائیوں کا اعتراف کرتے ہوئے عذیر بلوچ نے کہا’’ ہم نے لوگوں کو قتل کیا اور کارروائیوں کو ایسا رنگ دیا جس سے ظاہر ہو کہ یہ فرنٹئر کور(ایف سی) کا کام ہے۔‘‘
عذیر بلوچ کے پی پی رہنماؤں سے روابط کو اس تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ در پردہ اسے مضبوط سیاسی ہاتھوں کا تحفظ حاصل رہا۔ ’’ناکافی شواہد‘‘ کی بنیاد پر انسداد دہشتگردی عدالت سے حال ہی میں عذیر کی بریت اسی جانب اشارہ ہے۔ اس معاملے میں فوج کی آمد ان قوتوں کے لیے مشکل حالات کا پیغام ہے جو ریاستی وسائل کے ذریعے عذیر کو دہشت پھیلانے کے لیے استعمال کرتے رہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا مرنے والوں کے ساتھ راز بھی دفن ہو جاتے ہیں۔ پی پی سے زیادہ کون خوش ہو گا اگر عذیر بلوچ کو صولت مرزا کی طرح سزائے موت دے دی جائے۔
عذیر بلوچ نے ریاستی اداروں میں اپنے سہولت کاروں کی مدد سے قتل، تشدد، زمینوں پر قبضے، بھتہ وصولی اور بے گناہ افراد کو دھمکانے کے جرائم کا نہ صرف اعتراف کیا ہے بلکہ ناقابل تردید دستاویزی ثبوت بھی فراہم کیے ہیں، ایسے ثبوت انگریزی میں جنھیں Smoking Gun سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ سینیٹ کے بااصول چیئرمین رضا ربّانی اپنی قیادت سے متعلق اس معاملے میں مصلحتاً خاموش ہیں۔ عدلیہ جرائم کے اس نیٹ ورک کو نظر انداز نہیں کر سکتی، ماضی میں جس طرح سابق چیف جسٹس نے کیا۔ پانامہ کے فیصلے سے ہماری سمت کا تعین ہو گا۔ اگر مجرموں کو رعایت دی جاتی رہی تو وہ وقت دور نہیں جب اس ریاست پر صرف جرم کا راج ہو گا۔
اکرام سہگل

پنجاب رینجرز ہیلپ لائن

 پاک فوج نے آپریشن ”رد الفساد“ میں پنجاب رینجرز کی معاونت اور کسی بھی مشکوک شخص اور سرگرمی کی اطلاع دینے کیلئے فون نمبرز جاری کر دئیے ہیں۔ پاک فوج کے تعلقات عامہ کے ادارے (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ عوام کسی بھی مشکوک سرگرمی کی اطلاع دینے کیلئے 042-99220030 یا 042-99221230 پر رابطہ کر سکتے ہیں. 
جبکہ واٹس ایپ پر اطلاع دینے کیلئے 0340-8880100 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق عوام اگر کسی مشکوک شخص یا سرگرمی سے متعلق ایس ایم ایس کے ذریعے اطلاع دینا چاہتے ہیں تو اس مقصد کیلئے 0340-8880047 نمبر استعمال کیا جا سکتا ہے جبکہ ای میل ایڈریس help@pakistanrangerspunjab.com  پر بھی اطلاع دی جا سکتی ہے۔

پاکستان میں نیم فوجی فورسز کہاں کہاں تعینات ہیں؟

پاکستان میں پنجاب رینجرز ویسے تو صوبے کے بعض ضلعوں کے علاوہ ملک
کے دیگر علاقوں میں بھی اندرونی سلامتی سے متعلق فرائض انجام دے رہی ہے لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ اس نیم فوجی دستے کو ملک کے سب سے بڑے صوبے میں قیامِ امن کی ذمہ داری دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پاکستان رینجرز کو ملک کا سب سے بڑا نیم فوجی دستہ تصور کیا جاتا ہے جس کے قیام کا مقصد ملک کی مشرقی سرحد کی حفاظت کرنا ہے۔ پاکستان کے دو صوبوں سندھ اور پنجاب کی سرحد انڈیا کے ساتھ ملتی ہے اس لیے ان دو صوبوں میں پاکستان رینجرز کے صدر دفاتر بنائے گئے ہیں۔

صوبہ سندھ میں ‘سندھ رینجرز’ کئی دہائیوں سے سرحدوں کے علاوہ شہری علاقوں میں بھی قیام امن کی ذمہ داری ادا کر رہی ہے۔ پنجاب رینجرز کی ویب سائٹ پر شائع تفصیلات مطابق سرحدوں کی حفاظت کے علاوہ پنجاب ریجنرز بوقت ضرورت ملک کے اندر قیام امن کی ذمہ داری بھی ادا کرتی ہے۔ ضرورت کے مطابق قلیل مدت کی تعیناتی کے علاوہ ملک کے بعض علاقوں میں پنجاب رینجرز قیام امن کے لیے مستقل بنیادوں پر بھی تعینات ہیں جن میں گلگت بلتستان، اسلام آباد، تربیلا، راجن پور کے علاوہ صوبہ سندھ کا ضلع کشمور بھی شامل ہے۔ رینجرز کی صوبائی سطح پر سربراہی میجر جنرل رینک کا فوجی افسر کرتا ہے جو وزارت داخلہ کے ماتحت ہوتا ہے۔

رینجرز کی طرح اس نیم فوجی دستے کے بھی دو حصے ہیں۔ ایک بلوچستان میں امن قائم کرنے کی ذمہ داری ادا کرتا ہے جب کہ دوسرا حصہ خیبر پختونخوا اور وفاقی کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں میں تعینات ہے۔ رینجرز کی طرح اس نیم فوجی دستے کی قیادت بھی صوبے کی سطح پر میجر جنرل کے رینک کا فوجی افسر کرتا ہے اور وہ اصولی طور پر وزارت داخلہ کو جوابدہ ہوتا ہے۔ لیکن ان دونوں صوبوں میں جاری شورش اور شدت پسندی کے باعث فرنٹئیر کور کے اختیارات رینجرز کے مقابلے میں بہت مختلف اور زیادہ ہیں جن پر بعض سیاستدانوں اور سول سوسائٹی کے رہنماؤں کی جانب سے گاہے بگاہے تنقید بھی سامنے آتی رہتی ہے۔

فرنٹیئر کانسٹیبلری
ملک کے چاروں صوبوں میں ان بڑے نیم فوجی دستوں کے علاوہ بعض دیگر نیم فوجی دستے بھی پاکستان کے مختلف علاقوں میں قیام امن کے لیے پولیس کو معاونت فراہم کرتے ہیں۔ فرنٹیئر کانسٹیبلری ان میں نمایاں ہے۔ یہ فورس بنیادی طور پر خیبر پختونخوا میں قیامِ امن کے لیے پولیس کی معاونت کے لیے بنائی گئی تھی لیکن اہم مقامات، خاص طور پر غیر ملکی سفارت کاروں کے تحفظ کے لیے اس فورس کے اہلکار ملک بھر میں تعینات کیے جاتے ہیں۔ اس فورس کو باقاعدہ طور پر وفاقی نیم فوجی دستہ کہا جا سکتا ہے کیونکہ اس کی سربراہی پولیس افسر کرتا ہے جسے وفاقی وزارت داخلہ براہ راست تعینات کرتی ہے۔
لیویز
یہ نیم فوجی دستہ صوبہ بلوچستان، خیبر پختونخوا اور شمالی علاقوں کے مختلف اضلاع میں تعینات کیے جاتے ہیں۔ ان دستوں کی قیادت تو پاکستان کی بری فوج کے افسر کرتے ہیں لیکن ان میں مقامی افراد کو بھرتی کیا جاتا ہے۔ ان مقامی نیم فوجی دستوں کو قائم کرنے کا مقصد ان افراد کا اپنے علاقوں کے بارے میں معلومات کو استعمال کرنا بھی بتایا جاتا ہے۔ ان مقامی نیم فوجی دستوں میں چترال سکاؤٹس، خیبر رائفلز، سوات لیویز، کرم ملیشیا، ٹوچی سکاؤٹس، ساؤتھ وزیرستان سکاؤٹس، ژوب ملیشیا اور گلگت سکاؤٹس شامل ہیں۔
دیگر نیم فوجی دستے
ملکی بندرگاہوں، سمندری حدود اور ہوائی اڈوں کی حفاظت کے لیے چھوٹے چھوٹے نیم خود مختار نیم فوجی دستے بھی بنائے گئے ہیں جن کا مینڈیٹ مخصوص علاقوں یا تنصیبات کی حفاظت تک ہی محدود ہوتا ہے۔
انسداد دہشت گردی کی خصوص فورسز
گذشتہ چند برسوں کے دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں نے اپنے خود مختار حفاظتی دستے بھی تیار کیے ہیں جن کے بارے میں زیادہ معلومات جاری نہیں کی جاتیں۔ ان میں پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کی حفاظت کے لیے تیار کی گئی خصوص فورس، پولیس اور دیگر انٹیلیجن ایجنسیوں کے اپنے نیم فوجی دستے شامل ہیں۔ ان تمام نیم فوجی دستوں کی تعداد کو خفیہ رکھا جاتا ہے تاہم بعض اندازوں کے مطابق ان تمام فورسز کی مجموعی تعداد پانچ لاکھ کے قریب ہے۔
آصف فاروقی
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

سندھ میں کوٹہ سسٹم ختم کیا جائے، ڈی جی رینجرز بلال اکبر

 ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل بلال اکبر نے شہری علاقوں کا احساس محرومی
دور کرنے کے لئے سندھ میں کوٹہ سسٹم ختم کرنے کی تجویز پیش کردی۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی زیر صدارت اپیکس کمیٹی کا اجلاس وزیراعلیٰ ہاؤس میں ہوا جس میں گورنر ڈاکٹر عشرت العباد خان، آئی جی  سندھ اے ڈی خواجہ، ڈی جی رینجرز میجر جنرل بلال اکبر، کور کمانڈر کراچی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار سمیت اہم صوبائی شخصیات نے شرکت کی۔ اجلاس میں نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد اور کراچی میں جاری آپریشن کے حوالے سے تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔

 اس موقع پر ڈی رینجرز سندھ میجر جنرل بلال اکبر نے اجلاس کو ستمبر 2013 میں کراچی میں شروع کئے گئے آپریشن کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ اب تک 848 ٹارگٹ کلرز کو گرفتار کیا جا چکا ہے جس میں  654 کا تعلق ایم کیو ایم کے عسکری ونگ اور 95 کا تعلق لیاری گینگ وار سے ہے، گرفتار ملزمان نے ٹارگٹ کلنگ کی 5 ہزار 863 وارداتوں کا اعتراف کیا۔ ڈی جی رینجرز نے اجلاس کے دوران شہری علاقوں کا احساس محرومی ختم کرنے کے لئے صوبے میں رائج کوٹہ سسٹم کو ختم کرنے کی تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ دیہی کوٹہ 60 فیصد جب کہ شہری کوٹہ 40 فیصد ہے، جرائم سے بیزاری کے لئے احساس محرومی کو ختم کرنا ہو گا، صرف آپریشن سے پرامن سندھ کا خواب پورا نہیں ہوگا بلکہ ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں میرٹ پر عمل کرنا ہوگا۔

اجلاس کے دوران مشیر قانون سندھ مرتضیٰ وہاب نے دینی مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے سندھ حکومت کا تیار کردہ مسودہ پیش کیا جس کے تحت دینی مدارس کو 3 اداروں سے رجسٹریشن کرانی ہوگی۔ اس کے علاوہ اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ دینی مدارس کی رجسٹریشن سے متعلق بل دینی مدارس کی مشاورت سے ہی نافذ العمل کیا جائے گا جسے تمام شرکاء نے متفقہ طور پر منظور کیا گیا۔ اجلاس میں  متفقہ فیصلہ کیا گیا کہ ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں ہونے والے تمام فیصلوں پر مکمل عمل درآمد کروایا جائے گا۔

دہشتگردی کا سدباب

بہت سی  وجوہات کی بنا پر ایک یوم سوگ ہے۔ 43 سال تک ہم 1971ء میں مشرقی پاکستان کی فوجی شکست کو یاد کر کے غمگین رہے جب کہ 16 دسمبر 2014ء کو اس قدر ہولناک سانحہ ہوا جس کو  الفاظ میں بیان ہی نہیں کیا جا سکتا۔ اے پی ایس پشاور کے سانحہ نے پاکستانی عوام پر دہشتگردی کے وحشیانہ مائنڈ سیٹ کو مکمل تفصیلات کے ساتھ عیاں کر دیا اور اس سانحے نے پورے ملک کے لوگوں کو دہشتگردی کے عفریت کے مقابلے کے لیے متحد کر دیا۔

سندھ میں موجودہ تنازعہ اختیارات کی کشمکش کا نتیجہ ہے کیونکہ کرپشن کے ڈانڈے دہشتگردی سے مل جاتے ہیں، بسا اوقات منظم جرائم کی وجہ سے اور بسا اوقات براہ راست وہی نتیجہ نکلتا ہے۔ دہشت گرد گروپوں کو اسلحہ اور روپے پیسے کی ضرورت ہوتی ہے جس کو مہمیز دینے کی خاطر گاہے بگاہے کسی نظریہ کو استعمال کیا جاتا ہے جب کہ جرائم پیشہ لوگوں کو مال و دولت کی ہوس کی وجہ سے تقویت حاصل ہوتی ہے۔ 
ان کے رابطے کالے دھن کو سفید کرنے والوں یعنی منی لانڈرنگ والوں سے‘ جعلی پاسپورٹ اور شناختی دستاویزات تیار کرنے والوں سے محفوظ رہائش گاہیں فراہم کرنے والوں سے، دھماکا خیز مواد فراہم کرنے والوں وغیرہ سے ہوتے ہیں۔ وہ بڑی کامیابی کے ساتھ حکومت کے اعلیٰ حلقوں تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں اور قوانین اور قواعد و ضوابط کا غلط استعمال کرتے ہیں اور یہی غلط استعمال بعض مواقع پر اصل قانون کا درجہ اختیار کر لیتا ہے۔
سندھ حکومت نے رینجرز کو کراچی میں کارروائی کا اختیار دینے میں جان بوجھ کر جو رکاوٹ پیدا کی اس سے سارا معاملہ واضح طور پر کھل کر سامنے آ گیا۔ دہشت گردی کی ترویج کے لیے لاجسٹکس کی فراہمی کی خاطر بھاری رقوم 3 مدوں میں لگائی گئی ہیں -1 دھماکا خیز ساز و سامان-2خفیہ پناہ گاہیں اور نقل و حرکت کی سہولتیں شامل ہیں نیز آسان اہداف کی تلاش کا کام بھی کیا جاتا ہے۔ یہ رقوم حاصل کرنے کے لیے قتل و غارت سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔
 دہشت گرد مختلف دائروں کی شکل میں رہتے ہیں۔ سب سے اندرونی دائرے کے باہر دوسرا نسبتاً وسیع تر دائرہ ہوتا ہے جس میں براہ راست مدد کرنے والے‘ منصوبہ بندی کرنے والے‘ کمانڈرز‘ مذہبی شخصیات وغیرہ شامل ہوتے ہیں جو انفراسٹرکچر کے طور پر کام کرتے ہیں۔ تیسرا دائرہ مذہبی‘ تعلیمی اور فلاحی تنظیموں پر مشتمل ہوتا ہے جس میں سے بعض اپنے طور پر کام کرتے ہیں جب کہ بعض کو دباؤ کے ذریعے مجبور کیا جاتا ہے۔ 

چوتھا دائرہ وہ ہے جس میں منتخب نمائندے اور بیوروکریٹ شامل ہوتے ہیں جو درحقیقت سب سے زیادہ خطرناک لوگ ہوتے ہیں۔ ان لوگوں پر جمہوریت نافذ  کرنے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔

جج حضرات جن پر عدل و انصاف کرنے کی ذمے داری عائد ہوتی ہے وہاں سے اگر مجرموں کو کوئی رعایت یا ریلیف مل جائے تو اس سے جرم ختم ہونے کے  بجائے الٹا  پرورش پانا شروع کر دیتا ہے۔ یہ سمجھنے کے لیے کہ مجرم قانون کے نام پر کس طرح مجرمانہ کام کرتے ہیں اس کے لیے ہمیں ان معروف سیاسی شخصیات اور بیوروکریٹس کی طرف دیکھنا ہو گا جن کے خلاف بہت سے مقدمات کی تحقیقات جاری ہیں۔
 اہل دانش اور عام لوگ اس متوازی معاشرے کی سرگرمیوں سے یا تو لاعلم ہیں یا ان سے لاتعلق ہیں اور یہ متوازی سوسائٹی حکومت کے اندر اور حکومت کے باہر ہر دو طرف موجود ہے جس کا غیر قانونی انڈر ورلڈ سے اور غیر قانونی اقتصادی منڈیوں کے ساتھ گٹھ جوڑ ہے۔ میڈیا کی توجہ کھینچنے کے لیے دولت بھی استعمال کی جاتی ہے۔ ڈاکٹر عاصم حسین کے مقدمے نے یہ سارے راز ہائے دروں خانہ کھول کر بیان کر دیے ہیں۔
دہشت گردی منظم جرائم کے بغیر کام نہیں کر سکتی اور منظم جرائم کے ذریعے اسمگل شدہ منشیات‘ اسلحہ اور انسانی اسمگلنگ مختلف ممالک اور خطوں میں کروائی جاتی ہے جو کرپشن کے بغیر ممکن نہیں نیز اس مقصد کے لیے منشیات کی نقل و حمل سے مدد لی جاتی ہے۔ عسکریت پسندوں کے مراکز کے ذریعے منشیات کی غیر قانونی تجارت اور دیگر جرائم کیے جاتے ہیں۔ ان سب چیزوں پر قابو پانے کے لیے پولیس کی صلاحیتوں میں اضافہ کرنا لازمی ہے تا کہ وہ مجرمانہ نیٹ ورک کا سراغ لگا کر انھیں ناکارہ بنا سکیں۔
 لیکن اگر پولیس خود ہی کرپشن اور منظم جرائم میں ملوث ہو جائے تب اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا ڈاکٹر عاصم حسین قصوروار ہیں یا نہیں تاہم  ان سے  اعترافی بیان لکھوا لیا گیا جب کہ اس کے ساتھ ہی تمام شواہد ضایع کر دیے۔ اب ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایک فوجی عدالت اس پولیس آفیسر پر مقدمہ چلا سکتی ہے جس  نے ٹھوس ثبوت ضایع کر دیے ہیں۔ 
اس کا جواب یہ ہے کہ مکمل طور پر غیر قانونی ماحول میں قانون کا نفاذ ممکن ہی نہیں ہے۔ ہم نے مذہب اور قومیت کے مابین فرق کو خلط ملط کر دیا ہے جو لوگ نسلی یا فرقہ وارانہ تشدد کو ہوا دیتے ہیں ان ہی کو سب سے زیادہ سزا ملنی چاہیے۔ وہ لوگ جو منصوبہ سازوں کے ساتھ براہ راست ملوث ہوتے ہیں اور وہ لوگ جو انھیں بالواسطہ مدد دیتے ہیں ان کو لازمی طور پر ہدف بنایا جانا چاہیے۔ ان لوگوں کو خیرات کے نام پر بھی فنڈ موصول ہوتے ہیں۔
دہشت گردوں کی مالی ضروریات کرپشن کے ذریعے یا غیر ملکی ذرائع سے پوری کی جاتی ہیں۔ اس کو روکنے کا طریقہ یہی ہے کہ تمام رقوم کا بینکوں کے ذریعے لین دین کیا جائے جس سے پیسے دینے والے اور وصول کرنے والے دونوں کا پتہ چل سکتا ہے اور یہی طریقہ ہے جس سے رقوم کی غیر قانونی منتقلی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ مہذب دنیا ابھی اس فریب میں مبتلا ہے کہ مکمل طور پر لاقانونیت کے ماحول میں بھی قانون کا عمل دخل نافذ کیا جا سکتا ہے۔ 
کسی ملک میں آدم خوروں کے خلاف کوئی قانون نہیں ہے کیونکہ قانون سازوں کے نزدیک اس قسم کا تصور بھی ممکن نہیں۔ لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ دنیا ایسی چیزوں کے بارے میں بھی قانون سازی کرے جن کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے بہت سے دفاعی حصار قائم کرنا پڑیں گے مثلاً -1 جو لوگ دہشت گردی کی کارروائی میں ملوث ہیں ان کا کھوج لگا کر ان کی شناخت واضح کی جائے اور ان کی نقل و حرکت پر کڑی نگاہ رکھی جائے اور جو ان معاملات میں ملوث پایا جائے اس کے خلاف فوری اور موثر قدم اٹھایا جائے۔
اکرام سہگل