پانی کا بڑھتا بحران پاکستانی معیشت کیلئے خطرہ ہے

ورلڈ اکنامک فورم (ڈبلیو ای ایف) کی رپورٹ میں آئندہ 10 سالوں میں پاکستانی معیشت کے لیے خطرات کا اظہار کیا گیا ہے کیونکہ 3 سو ارب ڈالر کی معیشت مختلف خطرات کا مقابلہ کر رہی ہے۔ ’ریجنل رسکس فار ڈوئنگ بزنس‘ کے عنوان پر مبنی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں موجود 22 کروڑ کی آبادی پانی کے بحران، بے قابو مہنگائی، دہشت گرد حملوں، ناکام شہری منصوبہ بندی جیسے خطرات سے دوچار ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کی جانب سے جنوری اور جون کے درمیان ’ ایگزیکٹو اوپینین سروے‘ کیے جانے کے بعد مذکورہ خطرات کی نشاندہی کی گئی تھی۔ سروے میں خطرات سے متعلقہ سوالات پر جنوبی ایشیائی ممالک بنگلہ دیش، بھارت، نیپال، پاکستان اور سری لنکا کے ردعمل موصول ہونے کے بعد نتائج ترتیب دیے گئے تھے۔

رپورٹ میں جنوبی ایشیا میں کاروبار سے متعلق 10 بڑے خطرات کی نشاندہی کی گئی تھی جن میں حکومت کی ناکامی، بے قابو مہنگائی، بے روزگاری، علاقائی اور عالمی حکومت کی ناکامی، سائبر حملے، بنیادی انفرااسٹرکچر کی ناکامی، توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، فنانشل طریقہ کار کی ناکامی ، پانی کا بحران اور وسیع پیمانے پر ازخود ہجرت شامل ہیں۔ قومی حکومت کی ناکامی کو پاکستان ، نیپال، بنگلہ دیش، بھوٹان اور مالدیپ میں سب سے اہم چیلنج قرار دیا گیا تھا۔ جنوبی ایشیا میں انتخابات میں بے چینی کی فضا پائی جاتی ہے کیونکہ وہاں تشدد اور انتشار کے خطرات درپیش ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ انتخابات کے فوراً بعد کا دورانیہ بھی غیر یقینی صورتحال کی زد میں ہوتا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان ، نیپال اور بنگلہ دیش میں سائبر حملوں کے خطرات زیادہ ہیں کیونکہ ان ممالک میں مائیکروسافٹ مصنوعات پر مبنی کمپیوٹر استعمال کیے جاتے ہیں جہاں تقریباً روزانہ وائرس حملے ہوتے ہیں۔ جنوبی ایشیا کو درپیش سائبر خطرات اس وقت سامنے آئے تھے جب بنگلہ دیش کے بینک پر تاریخ میں سب سے بڑا سائبر حملہ ہوا تھا اور ہیکرز نے ملک کے مرکزی بینک سے 8 کروڑ ڈالر چوری کرلیے تھے۔ اس کے ساتھ ہی بے قابو ہوتی مہنگائی کو جنوبی ایشیا کے لیے دوسرا بڑا خطرہ قرار دیا گیا تھا۔ 2014-2016 میں عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے جنوبی ایشیا کو فائدہ ہوا تھا لیکن توانائی کی بڑھتی ہوئی اور مالیاتی اقدامات کی وجہ سے افراط زر سے متعلق خطرات میں اضافہ ہوا ہے۔

رواں برس جولائی میں پاکستان میں روپے کی قدر میں مسلسل کمی کی وجہ سے مہنگائی 4 سال میں بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔ رپورٹ میں بے روزگاری اور ملازمت کے کم ہوتے مواقع کو خطے کے لیے تیسرا اہم خطرہ قرار دیا گیا۔ سائبر حملوں کے خطرات کا سامنا کرنے والے 19 ممالک میں سے 14 کا تعلق یورپ اور شمالی امریکا سے تھا جبکہ افریقا کے صحرائی علاقے میں 34 میں سے 22 ممالک ’ بے روزگاری اور ملازمت کے کم مواقع کا سامنا ہے‘۔ جغرافیائی اور سیاسی تحفظات میں سے علاقائی اور عالمی حکومت کی ناکامی اور اور دہشت گرد حملوں کو نویں اور دسویں نمبر پر جگہ دی گئی۔ 17 ممالک میں جیوپولیٹیکل خطرات میں ’ بین الریاستی تنازعات‘ کو 3 اہم خطرات میں شامل کیا گیا تھا، ان میں سے اکثر ممالک یورپ اور یوریشیا میں سے تھے۔

امین احمد
یہ خبر ڈان اخبار میں 25 نومبر 2018 کو شائع ہوئی

آبی تنازعات پر پاک بھارت مذاکرات بلا نتيجہ ختم

پاکستان اور بھارت کے درمیان آبی تنازعات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے لیے مذاکرات کے دو روز پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں ہوئے، جس میں دونوں ملکوں کے سندھ طاس کمشنر اور آبی ماہرین شریک ہوئے۔ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو دی گئی بریفنگ میں بتایا گیا ہے کہ پاک بھارت انڈس واٹر کمشنروں کے اجلاس میں اتفاقِ رائے نہیں ہو سکا۔ ذرائع کے مطابق، دو روز میں دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کے چار دور ہوئے، جن میں دونوں ممالک اپنے مؤقف پر قائم رہے۔ پاکستان کی درخواست پر بلائے گئے اجلاس میں پاکستان نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ’پکل ڈل ڈیم‘ اور ’لوئیر کلنائی‘ منصوبوں کے ڈیزائن پر اعتراضات اٹھائے تھے۔

پاکستاني انڈس واٹر کمشنر، سید مہر علی شاہ کا کہنا تھا کہ دونوں منصوبے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ ’پکل ڈل ڈیم‘ اور ’لوئر کلنئی ہائیڈرو پاور پراجیکٹس‘ سے پاکستان کو پانی کی کمی ہو گی۔ پاکستان نے بھارت سے مطالبہ کیا کہ وہ ’پکل ڈل پروجیکٹ‘ کی اونچائی میں کمی جبکہ ’لوئر کلنئی‘ منصوبے کے ڈیزائن میں بھی تبدیلی کرے۔ اطلاعات کے مطابق، پاکستان کے جواب میں بھارت اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہا۔ بھارتي وفد کا مؤقف تھا کہ انہیں بھی پانی کی کمی کا سامنا ہے، آبی ذخائر نہ ہونے سے پانی کی بڑی مقدار سمندر میں چلی جاتی ہے۔ موسمی تبدیلیوں کے باعث دریاؤں میں پانی کي کمی ہے۔ بھارتی انڈس واٹر کمشنر پی کے سیکسینا کا مؤقف تھا کہ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ بنانا سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی نہیں ہے۔

انڈس واٹر کمشنرز مذاکرات میں بھارت نے پاکستان کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات مسترد کر دئیے، جبکہ ’پکل ڈل ڈیم‘ اور ’لوئر کلنئی‘ پر کام جاری رکھنے کا بھی عندیہ دے دیا ہے۔ بھارتی وفد نے پاکستان کے تحفظات پر اپنی حکومت کو آگاہ کرنے کی یقین دہانی کرا دی ہے اور مزید بات چیت آئندہ اجلاس میں کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ انڈس واٹر کمشنرز کے آئندہ اجلاس کا شیڈول بعد میں طے ہو گا۔ پاکستان نے اس سے قبل بھی دریائے چناب پر بھارت کی جانب سے بنائے جانے والے کشن گنگا ڈیم پر اعتراض اٹھایا تھا اور معاملہ عالمی عدالت تک پہنچا تھا جہاں پاکستان یہ معاملہ ہار گیا تھا۔ دونوں ملکوں کے درمیان پانی کے مسائل حل کرنے کے لیے یہ ایک سو پندرہوں اجلاس تھا۔ اس سے قبل دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات رواں برس بھارت کے دارلخلافہ نیو دہلی میں ہوئے تھے۔

کنور رحمان خان

وائس آف امریکہ

چندہ برائے ڈیم، مگر ڈیم چندوں سے نہیں بنتے

پاکستان میں پانی کی قلت پر چیف جسٹس پاکستان کی حساسیت قابل ستائش ہے مگر نہایت ادب کے ساتھ عرض ہے کہ اس طرح انفراسٹرکچر کی مالی ضروریات پوری نہیں کی جاتیں۔ آپ لوگوں کے چندے سے ڈیم نہیں بنا سکتے۔ بلکہ یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ ایسا کہنا باعثِ شرمساری ہے۔ دیامیر بھاشا ڈیم کی فنڈنگ، جس کا تخمینہ 1 اعشاریہ 450 کھرب روپے لگایا گیا، کے لیے رضاکارانہ طور پر اکٹھا کیے گئے چندے کو جب استعمال کرنے کی کوشش کی جائے گی تو جو سوالات کھڑے ہوں گے ان پر ذرا غور کیجیے۔ مذکورہ تخمینہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی، ترقی و اصلاحات کو دی گئی پانی و بجلی کے افسران کی بریفننگ سے لیا گیا ہے۔ آبی ذخائر کی تعمیر کا تخمینہ 650 ارب روپے لگایا گیا ہے جبکہ بقیہ رقم بجلی کے ٹربائن اور متعلقہ انفراسٹرکچر، زمین کے حصول اور متاثرین کی آبادکاری کو مدنظر رکھتے ہوئے شامل کی گئی۔

آئیے ان اندازوں کا تھوڑا حساب کتاب کرتے ہیں۔ تاوقت تحریر، اس اکاؤنٹ میں اب تک 3 کروڑ 20 لاکھ روپے ڈالے جا چکے ہیں۔ اب چونکہ اکاؤنٹ کو 6 جولائی کو کھولا گیا تو چلیے فرض کرتے ہیں کہ اکاؤنٹ کو کھلے 3 دن ہوئے ہیں؛ اس حساب سے فی دن اکاؤنٹ میں 1 کروڑ روپے ڈالے گئے۔ اب یہ فرض کرتے ہیں کہ اس فی دن کے حساب میں رقم میں اضافہ ہوتا ہے کیونکہ (منگل کے روز ہونے والے اجلاس میں) بینک ملازمین سے پیسے لے کر فنڈنگ میں اضافہ کرنے کے لیے بینکوں پر بن کہے دباؤ ڈالا گیا ہے۔ یہ چندہ کس طرح کا ’رضاکارانہ‘ ہو گا، یہ ایک الگ بحث ہے۔ چلیے فرض کرتے ہیں کہ (اگر بہت ہی زیادہ امیدیں باندھی جائیں تو) فی دن اکاؤنٹ میں 2 کروڑ منتقل ہوتے ہیں ، تو ہدف تک پہنچنے کے لیے 72 ہزار 500 دن یا 199 برس درکار ہوں گے۔

چند لوگ یہاں ہماری بات کاٹتے ہوئے کہیں گے کہ بھئی کام شروع کرنے کے لیے کُل رقم کی ضرورت تھوڑی ہو گی! اچھا تو پھر ایک دوسرے زاویے سے غور کیجیے۔ منصوبہ بندی کمیشن کی ویب سائٹ پر دستیاب پبلک سیکٹر ڈولپمنٹ پروگرام کے دستاویز کے مطابق اگلے برس کے لیے اس منصوبے میں شامل ڈیم کے ایک حصے کی خالی تعمیر کے لیے ہی 23 اعشاریہ 68 ارب روپے مختص کیے گئے۔ چلیے اب حساب کتاب کرتے ہیں۔ 2 کروڑ فی دن کے حساب سے 23 اعشاریہ 68 ارب کے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے 1184 دن یا 3 اعشاریہ 2 برس درکار ہوں گے۔ مطلب یہ کہ اگلے برس کی پی ایس ڈی پی کی اگلے سال کے لیے مختص کردہ رقم کے برابر پیسے حاصل کرنا ممکن نہیں ہو گا۔

ہم ان مفروضوں کو بدل بھی سکتے ہیں۔ چلیے مان لیتے ہیں کہ چندہ میرے اندازوں سے بہت زیادہ (بہت ہی زیادہ سخاوت کے ساتھ) دیا جاتا ہے۔ مان لیتے ہیں کہ رقم دگنی ہو جاتی ہے۔ یوں پھر عرصہ بھی نصف درکار ہو گا یعنی فقط اگلے برس کے ہدف کو پہنچے کے لیے بھی ڈیڑھ سال سے زائد وقت درکار ہو گا۔فرض کریں کہ چندے کا مقصد پورے ڈیم کی قیمت کی ادائیگی کے بجائے حکومت کے منصوبے کے لیے مختص کردہ رقوم میں محض اضافہ کرنا ہو۔ اس کے بعد بھی، (فرض کیجیے اگر فی دن 2 کروڑ چندہ دیا جاتا ہے تو) سالانہ 7 اعشاریہ 3 ارب روپے اکٹھا ہوں گے، یہ رقم منصوبے میں شامل دوبارہ آباد کاری کے عمل پر آنے والی لاگت کو بھی پورا کرنے کے لیے ناکافی ہو گی۔ عوام سے مالی امداد مانگنا مذاق کی بات نہیں، ریاست خیرات پر نہیں چلتی، اور بنیادی ڈھانچوں پر آنے والی رقم کو اس طرح لوگوں سے چندہ مانگ کر اکٹھا نہیں کیا جاتا۔ دھیان رہے کہ یہاں پر فرض کیے گئے حساب کتاب کے مطابق سالہا سال تک یومیہ دو کروڑ روپے کے عطیات ہر روز کی ضرورت ہو گی۔ ان عطیات کے پیچھے موجود جوش و جذبہ کب تک برقرار رہے گا ؟ ہفتوں تک ؟ مہینوں تک ؟

کسی مقصد کے لیے لوگوں کو ان کی محنت سے کمائے ہوئے پیسوں میں سے چندہ دینے کے لیے کہا جائے تو اس سے پہلے لوگ چند بنیادی سوالات پوچھنے کا حق رکھتے ہیں۔ یہ پیسہ کس چیز کے لیے استمعال ہو گا ؟ اکٹھا کی گئی مجموعی رقم کو کس طرح استعمال کرنا ہے اس کا اختیار کسے ہو گا ؟ رقم کی تقسیم کن اصولوں کے تحت کی جائے گی؟ میری دی ہوئی رقم کس حد تک اثر انداز ہو گی؟ غالباً پہلے ان سوالوں کا جواب دیا جانا چاہیے۔ مثلاً کیا اکاؤنٹ سے رقم سیدھا اس جگہ منتقل کی جائے گی جہاں لاگت آنے ہے یا پھر اسے واپڈ، واٹر اینڈ پاور ڈویژن، یا وزارت خزانہ کو دے دی جائے گی؟ اگر رقم کو سیدھا اسی جگہ منتقل کیا جاتا ہے جہاں رقم مطلوب ہے، تو پھر ایک اور مثال ملاحضہ فرمائیں۔

یہ تجویز لینے کے لیے کہ خطے میں بڑی سطح پر بدلتے ہوئے درجہ حرارت کو مدنظر رکھتے ہوئے کون سا سیمنٹ استعمال کیا جائے اور ڈیم کا ڈھانچہ ایک سال میں کتنا پھیلے گا اور کتنا سکڑے گا، اس لحاظ سے مناسب کنکریٹ کا انتخاب اہم ہے، لہٰذا اس حوالے سے تجویز حاصل کرنے کی غرض سے کسی تکنیکی کنسلٹنٹ کو مقرر کرنے کی ضرورت پڑتی ہے تو یہ فیصلہ کون کرے گا کہ کون سا کنسلٹنٹ اس کام کے لیے بہتر ہے؟ کنسلٹنٹ کے انتخاب کا معیار کیا ہو گا ؟ اس قسم کے بڑے بڑے منصوبوں میں ایسے ہزاروں فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔ اکٹھا کی گئی رقم کس طریقہ کار یا اصولوں کے تحت منتقل کی جائے گی۔ اگر رقم کو واپڈا کے ہاتھوں میں دینے کا منصوبہ ہے تو یہ نگرانی کون کرے گا کہ یہ پیسہ صحیح انداز میں خرچ کیا جا رہا ہے؟ وہ شخص اس قسم کے بڑی سطح کے غیر معمولی تکنیکی منصوبوں پر عملی کام کروانے کا کس حد تک تجربہ اور قابلیت رکھتا ہے؟

ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ جب ایک بڑے ہی سنجیدہ معاملے کو مذاق بنا دیا گیا ہے۔ 2005ء کے زلزلے کے بعد پرویز مشرف نے بھی اسی قسم کے ایک فنڈ کا اعلان کیا تھا جسے پریزیڈنٹ رلیف فنڈ کا نام دیا گیا تھا۔ اس کے آغاز کے ساتھ لوگوں سے پیسے نکوالنے کے لیے اسی طرح خاموشی کے ساتھ دباؤ ڈالنے کے طریقے اپنائے گئے، اور ایک ایک کر کے مختلف کمپنیاں یہ کہہ کر قطار میں کھڑی ہو گئیں، ’امداد دینے میں ہمیں خوشی ہو گی’۔ یوں ایک جگہ سے دس لاکھ دوسری جگہ سے 20 لاکھ ملنے لگے، یہ سلسلہ اس وقت تک ہی جاری رہ سکا جب تک کہ لوگوں کی اس میں دلچسپی ختم نہیں ہو گئی اور سب بھول نہیں گئے۔ اسی طرح 90ء کی دہائی میں امدادی رقم سے غیرملکی قرضہ اتارنے کے مقصد سے نواز شریف نے اپنے دوسرے دور حکومت میں ’قرض اتارو ملک سنوارو‘ نامی اسکیم شروع کی تھی۔ یہ اسکیم بھی شرمندگی کے ساتھ انجام کو پہنچی۔

مجھے ایسی ہی ایک دوسری اسکیم بھی یاد ہے جو ذوالفقار علی بھٹو اپنے آخری سال میں شروع کی تھی۔ ان دنوں ٹی وی پر اشتہارات نشر کیے جاتے جن میں عوام کو کہا جاتا کہ وہ ہر روز ایک روپیہ کی امداد دیں، ان اشتہارات میں رقم کو ترقیاتی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا وعدہ بھی کیا جاتا تھا۔ اشتہار میں ’ترقی‘ کو سیمنٹ کی لفٹ سے ظاہر کیا جاتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ دور حاضر میں عوامی پیسے کو اس طرح استعمال نہیں کیا جا سکتا، خاص طور پر بات جب بنیادی ڈھانچے کے لیے مطلوب پیسے کی ہو۔ یہ وقت ہے کہ ہم عقلمندی سے کام لیں اور حقیقت کا سامنا کریں: جب تک ہم واٹر پرائسنگ کے نظام کو ٹھیک کرنے کے علاوہ اس بحران سے باہر نکلنے کا اور کوئی راستہ نہیں۔

خرم حسین
یہ مضمون 12 جولائی 2018ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تربیلا ڈیم میں پانی کی سطح ڈیڈ لیول پر پہنچ گئی

ملک میں پانی کے ذخائر میں انتہائی حد تک کمی آ گئی ہے، تربیلا ڈیم میں پانی کی سطح ڈیڈ لیول پر پہنچ گئی ہے۔ ملک میں کم بارشوں اور گلیشیر کے نہ پگھلنے سے آبی ذخائر کم ہوتے جا رہے ہیں۔ فلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن کے مطابق تربیلاڈیم ڈیڈ لیول پر آگیا، جہاں پانی کی سطح تیرہ سو چھیاسی فٹ ریکارڈ کی گئی ہے۔
تربیلا ڈیم میں پانی کی آمد ایک لاکھ ایک ہزار، اخراج پچانوے ہزار پانچ سو کیوسک ریکارڈ کیا گیا گیا۔ فلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن کے مطابق منگلا ڈیم میں پانی کی سطح گیارہ سو بائیس فٹ ریکارڈ کی گئی ہے، تربیلا ڈیم میں پانی کی آمد انتالیس ہزار، اخراج انہتر ہزار ایک سو بیس کیوسک ریکارڈ کی گئی ہے جبکہ دریائے کابل میں نوشہرہ کے مقام پر پانی کا بہاؤ پینتالیس ہزار دو سو کا ہو گیا ہے۔

بھاشا اور مہمند ڈیم کی فوری تعمیر کا حکم

سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم کی فوری تعمیر کا حکم دیتے ہوئے وفاقی حکومت سے تین ہفتوں میں رپورٹ طلب کر لی ہے۔ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 4 رکنی بینچ نے ڈیمز کی تعمیر سے متعلق کیس کی سماعت کی جس میں عدالت نے ڈیموں کی تعمیر سے متعلق مختصر فیصلہ سنا دیا۔ سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو فوری طور پر بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم تعمیر کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ حکومت 3 ہفتوں میں ڈیموں کی تعمیر شروع کرنے سے متعلق رپورٹ دے اور ڈیموں کی تعمیر کیلئے سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے نام ایک اکاؤنٹ بھی کھولا جائے۔ سپریم کورٹ نے قوم سے ڈیموں کی تعمیر کے لیے اس اکاوئنٹ میں پیسہ جمع کرانے کی بھی اپیل کی۔

اس سے قبل دوران سماعت سابق چیئرمین واپڈا شمس الملک نے بریفنگ کے دوران بتایا کہ دنیا بھر میں 46 ہزار سے زائد ڈیمز بنے، بھارت نے ساڑھے 4 ہزار ڈیمز اور چین نے 22 ڈیمز بنائے جب کہ ورلڈ بینک اور کینیڈا مدد نہ کرتے تو پاکستان میں ایک ڈیم بھی نہ ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ڈیموں کی شدید قلت ہے، ڈیموں کی تعمیر پر فوری کام شروع ہونا چاہئے۔ چیف جسٹس نے دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پاکستان کو پانی کی قلت کا سامنا ہے، پانی کے بغیر ملک کی بقاء مشکل ہو جائے گی، جنگی بنیادوں پر پانی کا مسئلہ حل نہ ہوا تو بحران شدید ہو جائے گا لہذا فوری طور پر بھاشا اور مہمند ڈیم کی تعمیر شروع کی جائے جب کہ کالاباغ ڈیم پر بہت لوگوں کے اختلاف ہیں، سب کا اتفاق ہو تو کالا باغ ڈیم بھی بن سکتا ہے۔

پانی و بجلی کے حکام نے عدالت کو بتایا کہ 2001 سے پانی کی دستیابی میں بتدریج کمی آرہی ہے، رواں سال پانی کی دستیابی گزشتہ سالوں کی نسبت انتہائی کم ہے، تربیلا کے بعد ہمیں ہر 10 سال بعد ایک نیا ڈیم بنانا چاہئے تھا، ہمارے پاس 13.7 ملین ایکڑ پانی ذخیرہ کرنے کی استعداد ہے، بھاشا اور مہمند ڈیم سے ہمارے اسٹوریج میں اضافہ ہو گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان کو ڈیمز کی ضرورت ہے، پاکستان کی ضرورت کے تحت جتنے ڈیمز بنائے جائیں کم ہیں، زیر زمین پانی ریاست کی ملکیت ہوتی ہے اور ہم نے کھربوں روپے کا پانی مفت میں دے دیا جب کہ ڈیمز تو بننے ہیں، یہ ملکی بقاء کے لئے بہت ضروری ہیں، ہمیں ملک متحد کرنا ہے تقسیم نہیں، اس لئے فی الحال کالا باغ ڈیم کی بات نہیں کر رہے، ممکن ہے کہ مستقبل میں سندھ کالا باغ ڈیم بنانے کا مطالبہ کرے، فی الحال ان ذخائر پر فوکس کر رہے ہیں جن پر کوئی تنازعہ نہیں ہے۔

پاکستان میں مسئلہ پانی کا

کراچی میں پانی کی عدم فراہمی اور نکاسی آب کی خراب صورتحال کے پیش نظر جسٹس (ر) امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں واٹر کمیشن تشکیل دیا گیا جس کے اجلاس تواتر سے جاری ہیں، کمیشن کے حالیہ اجلاس میں دیئے گئے حکم کے مطابق اگر کارخانوں کے مالکان نے 3 ماہ کی مقررہ مدت میں پانی صاف کرنے کے پلانٹس نصب کر دیئے تو امید کی جا سکتی ہے کہ پانی کی آلودگی کی صورت حال پر قابو پانے اور آبی حیات کو تباہی سے بچانے کی کوششیں بار آور ہو جائیں گی۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ کارخانوں کے مالکان متعلقہ حکام اور اہلکاروں کی ملی بھگت سے اپنی فیکٹری کا فضلہ اور کیمیائی مواد صاف کرنے کی بجائے سمندر اور دریائوں میں بہا دیتے ہیں جس کے باعث وہ آلود ہ ہو رہے ہیں۔

کمیشن نے فیکٹری مالکان کو تنبیہ کی کہ اگر دو ماہ میں پلانٹ نہ لگائے گئے تو فیکٹریاں سیل کر دی جائیں گی جبکہ پانی کی فراہمی اور ٹریٹمنٹ پلانٹ کو فنکشنل بنانے کے حوالے سے وفاقی سیکرٹری توانائی کو آئندہ سماعت پر طلب کر لیا گیا۔ موسمی تبدیلی کے حوالے سے کمیشن نے کہا کہ لوگوں کو نیم اور املتاس کا ایک ایک پودا لگانے کی بھی ترغیب دی جائے۔ کمیشن کی کراچی میں پانی کی عدم فراہمی پر بھی تفصیل سے سماعت کی گئی۔ سربراہ کا کہنا تھا کہ سورس ایک ہے پانی کا ضائع ہونا اور چوری زیادہ ہے، 33 فیصد پانی ضائع ہو رہا ہے، کراچی بہت بڑا شہر ہے جس کے مسائل پر قابو پانے کے لئے مرحلہ وار پلان بنانے کی ضرورت ہے۔

ویسے تو پورے ملک میں ہی پانی کی شدید قلت ہے۔ جس کی وجہ ہماری حکومتوں کی آبی ذخائر نہ بنانے کے باب میں مجرمانہ غفلت ہے جبکہ بھارت نےبھی ہمیں پانی کی بوند بوند سے ترسانے کی کوشش جاری رکھی ہوئی ہیں۔ ایک طرف تو پانی کی قلت ہے جبکہ دوسری طرف جو پانی دستیاب ہے اس میں کیمیائی فضلہ پھینک کر ناقابل استعمال بنایا جارہا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ مستقبل میں بغیر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگائے کسی کو فیکٹری قائم کرنے کی اجازت نہ دے اور موجودہ فیکٹریوں کو بھی اس کا پابند بنائے۔

اداریہ روزنامہ جنگ

پاکستان میں دو ڈیمز کی تعمیر پر اتفاق رائے ہو گیا

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے قرضہ معافی کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ فوری طور پر 2 ڈیمز کی تعمیر پر اتفاق رائے ہو گیا ہے، گزشتہ چند دنوں میں اہم ملاقاتیں کی ہیں، قرضہ معافی کیس میں وصول ہونے والی رقم سے ڈیم بنائیں گے۔ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں 54 ارب روپے کے قرضہ معافی کیس کی سماعت ہوئی، اس دوران وکیل فاروق ایچ نائیک عدالت میں پیش ہوئے۔ سماعت کے دوران ڈیموں کی تعمیر سے متعلق چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 2 ڈیموں کی تعمیر پر تمام اسٹیک ہولڈرز میں اتفاق رائے ہو گیا ہے، بہت جلد آپ کو ڈیمز کے حوالے سے خوشخبری دوں گا۔

چف جسٹس نے فاروق ایچ نائیک سے مکالمہ کیا کہ جلد ہی اپنے دوستوں سے رابطے کروں گا کہ اس کار خیر میں حصہ ڈالیں، ان دوستوں میں آپ کا نام بھی شامل ہو گا، اس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ تاریخ میں آپ کا نام سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قرضہ معافی کیس میں 2 آپشن دیے تھے، چند کمپنیوں نے معاف کرائی گئی 75 فیصد رقم کی واپس آمادگی کا اظہار کیا ہے، جو رقم واپس نہیں کرنا چاہتے ان کے مقدمات بینکنگ کورٹس کو بھجوا دیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بینکنگ کورٹس جانے والے کیسز میں متعلقہ افراد کی جائیدادیں کیس سے منسلک کریں گے، بینکنگ کورٹ کے فیصلے تک معاف کرائی گئی رقم عدالت میں جمع کروانا ہو گی۔

آبی قلت کے شکار ملکوں میں پاکستان تیسرے نمبر پر

پانی کی قلت کے شکار ممالک میں پاکستان تیسرے نمبر پر آگیا جس کی بنیادی وجہ پانی کی ذخائر کی کمی اور اس کا نامناسب استعمال ہے۔ منصوبہ بندی کمیشن کی رپورٹس کے مطابق ملک میں صرف 30 دن کے استعمال کیلئے پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے جو کم از کم 120 دن ہونی چاہیے۔ پاکستان میں دریاؤں اور بارشوں کی صورت میں سالانہ تقریبا 115 ملین ایکڑ فٹ پانی مہیا ہوتا ہے جس کا 93 فیصد زراعت کیلیے استعمال ہوتا ہے جبکہ 5 فیصد گھریلو اور 2 فیصد صنعتی مقاصد کیلیے استعمال کیا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق زرعی شعبے کو ملنے والا 70 فیصد پانی دوران ترسیل ضائع ہو جاتا ہے۔

آلودہ پانی پینے سے ہر سال 53 ہزار پاکستانی مرتے ہیں

اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے کہا ہے کہ آلودہ پانی پینے سے ہر سال 53 ہزار پاکستانی بچے موت کی نیند سو جاتے ہیں، پانی میں آلودگی ہیضہ، ہیپاٹائٹس اور ٹائیفائیڈ پھیلانے کا باعث ہے۔ یونیسیف نے اپنی رپورٹ میں آلودہ پانی کو پاکستان کا مسئلہ نمبر1 قرار دیدیا اور کہا کہ ملک میں 30 سے 40 فیصد بیماریوں اور اموات کی بنیادی وجہ آلودہ پانی ہے۔ رپورٹ کے مطابق بڑھتی آبادی اور کم ہوتے پانی کے باعث 2025ء میں پاکستان خشک سالی کا شکار ہو سکتا ہے۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف کے پراجیکٹ آفیسر نے کہا ہے کہ لاہور کے شہریوں کو پانی فراہم کرنے والے دریائے راوی ہی میں سیکڑوں فیکٹریوں کا فضلہ ڈالا جاتا ہے، دریا کی مچھلی کی ہڈیوں میں ہیوی میٹل کے اثرات ملے ہیں۔ وائس چانسلر پمز نے کہا کہ 5 سے 6 کروڑ پاکستانی آرسینک ملا پانی پی کر خود کو ’سلوپوائزننگ‘ کا شکار کر رہے ہیں ۔
 

اسی فیصد پاکستانی آلودہ پانی پینے پر مجبور

 وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی رانا تنویر نے سینیٹ میں انکشاف کیا کہ
پاکستان کی 80 فیصد سے زائد آبادی آلودہ اور مضر صحت پانی پینے پر مجبور ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن کے سوال کے جواب میں رانا تنویر نے کہا کہ پاکستان کونسل فار ریسرچ اِن واٹر ریسورسز (پی سی آر ڈبلیو آر) نے ملک بھر میں پانی کا معیار جانچنے کے حوالے سے کئی مانیٹرنگ پروجیکٹس شروع کیے۔ انہوں نے کہا کہ ملک بھر کے 24 اضلاع میں موجود 2 ہزار 807 گاؤں سے جمع کیے جانے والے پانی کے نمونوں میں سے 69 سے 82 فیصد نمونے آلودہ اور مضر صحت پائے گئے۔

رانا تنویر نے بتایا کہ پی سی آر ڈبلیو آر کی رپورٹ کے مطابق پانی میں آلودگی زیادہ تر فضلے میں پیدا ہونے والے جراثیموں، زہریلی دھات، گدلاپن، حل شدہ مضر عناصر، نائٹریٹ اور فلورائیڈ کی موجودگی کی وجہ سے ہوئی۔ ایوان بالا کو یہ بھی بتایا گیا کہ ملک بھر میں اسٹیٹ آف دی آرٹ 24 واٹر ٹیسٹنگ لیبارٹریز قائم کرنے کے علاوہ پانی کو صاف کرنے کے لیے دیگر اقدامات بھی اٹھائے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان اقدامات میں مائیکرو بائیولوجیکل ٹیسٹنگ کٹس، کم قیمت آرسینک ڈٹیکشن کٹس، کلورینائزیشن اور ڈس انفیکشن ٹیبلٹس کی تیاری شامل ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ملک کے بیشتر علاقوں میں پینے کے پانی میں مضر صحت جراثیم پائے گئے اور اس کی شرح 69 فیصد تک بلند پائی گئی جبکہ بعض علاقوں میں پانی میں مضر صحت دھاتوں کی شرح 24 فیصد اور گدلے پن کی شرح 14 فیصد پائی گئی۔  پی سی آر ڈبلیو آر کے مطابق پانی میں موجود خرد حیاتیاتی (microbiological) آلودگی ہیضہ، ڈائریا، پیچش، ہیپاٹائٹس اور ٹائیفائیڈ وغیرہ جیسی بیماریوں کی اہم ترین وجہ ہے۔ پانی میں موجود مضر صحت دھاتوں کی وجہ سے مختلف اقسام کی ذیابیطس، جلدی امراض، گردے، دل کے امراض، بلند فشار خون، پیدائشی نقائص اور کینسر بھی ہوسکتا ہے۔

پی سی آر ڈبلیو آر کے سینئر عہدے دار نے ڈان کو بتایا کہ ان کی لیبارٹریز کو فنڈز کی کمی کا سامنا ہے جس کی وجہ سے وہ ٹھیک طرح سے کام نہیں کرپارہے۔
1.2 ارب روپے کی لاگت سے شروع کی جانے والی ان لیبارٹریز کا مقصد پینے کے پانی میں آلودگی کی جانچ کرنا اور شہریوں تک پینے کے صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنانا تھا۔ 2007 میں شروع ہونے والے ’پینے کے صاف پانی کی فراہمی‘ کے پروجیکٹ کو بھی فنڈز کی کمی کہ وجہ سے کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ عملے کو کئی ماہ سے تنخواہیں ادا نہیں کی جاسکی ہیں، عارضی ملازمین کو مستقل کرنے کا وعدہ بھی پورا نہیں کیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ تکنیکی اہلیت کے حامل لوگ، جن میں کئی پی ایچ ڈیز بھی شامل ہیں، بہتر مواقع کی تلاش میں ادارے کو چھوڑ کر چلے گئے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پی سی آر ڈبلیو آر کے چیئرمین ڈاکٹر محمد اشرف پروجیکٹ کو آپریشنل رکھنے کے لیے کافی جدوجہد کررہے ہیں اور دیگر محکموں سے فنڈز اکھٹے کرکے اسے چلانے کی کوشش کررہے ہیں جبکہ یہاں کام کرنے والے 200 ملازمین کے مسائل کے حل کے لیے بھی کوشاں ہیں۔
جمال شاہد