کیا فیس بک میں آپ کے فون نمبر محفوظ ہیں ؟

فیس بک پرائیوسی کے حوالے سے تنقید کی زد میں ہے اور اب کی بار ایک سیکیورٹی فیچر اس کی وجہ بنا ہے۔ فیس بک نے 2011 میں صارفین کے لیے ٹو فیکٹر آتھنٹیکشن فیچر متعارف کرایا تھا، یعنی ایسا عام سیکیورٹی فیچر جس میں لاگ ان کی کوشش پر ایک ایس ایم ایس صارف کو موصول ہوتا ہے۔ مگر اب انکشاف ہوا ہے کہ یہ فیچر فیس بک دیگر مقاصد کے لیے بھی استعمال کر رہی ہے۔ ٹیک کرنچ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس سیکیورٹی فیچر کے لیے دیئے جانے والے صارفین کے فون نمبروں کو فیس بک دیگر مقاصد کے لیے استعمال کرتی رہی ہے۔ اس مقصد کے لیے ستمبر 2018 میں اس کی لینگوئج کو اپ ڈیٹ کر کے اس میں اینڈ مور کا اضافہ کیا گیا حالانکہ پہلے لکھا تھا

 Add your phone number to help secure your account

اب جو صارفین سیکیورٹی کے لیے اپنے فون نمبر کا اضافہ کرتے ہیں، انہیں ایک سیکیورٹی سیٹنگ کا سامنا ہوتا ہے جو ان سے پوچھتی ہے کہ اس نمبر کو کون کون دیکھ سکتا ہے اور اس کے لیے آپشنز ہوتے ہیں ایوری ون، فرینڈ آف فرینڈ یا فرینڈز، اپنی حد تک رکھنے کا کوئی آپشن نہیں۔ اسی طرح فیس بک انسٹاگرام سے معلومات شیئر کرتی ہے اور انہیں کہتی ہے کہ اگر مین فیس بک ایپ میں ان کا فون نمبر مختلف ہے تو انسٹاگرام پروفائل میں بھی اسے اپ ڈیٹ کریں۔ گزشتہ سال ستمبر میں ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ فیس بک اس سیکیورٹی معلومات کو ٹارگٹ اشتہارات کے لیے استعمال کرتی ہے۔ اب ایک سائٹ ایموجی پیڈیا کے ایڈیٹر جرمی برگ نے اس حوالے سے نئی روشنی ڈالی ہے اور انکشاف کیا کہ اس حوالے سے صارفین کی پرائیویسی کا خیال نہیں رکھا جارہا۔

فیس بک نے اس حوالے سے اپنے بیان میں کہا ‘ہم نے ٹو فیکٹر آتھنٹیکشن کے حوالے سے مختلف سوالات کو سنا ہے، یہ ایک اہم سیکیورٹی فیچر ہے اور گزشتہ سال ہم نے ایک آپشن کا اضافہ کیا تھا جس کے تحت صارف بغیر فون نمبر کے بھی رجسٹریشن کرا سکتے ہیں’۔ بیان میں کہا گیا کہ گزشتہ سال اپریل میں ہم نے فیس بک سرچ بار میں کسی فرد کے فون نمبر یا ای میل ایڈریس سے اسے تلاش کرنے کا فیچر ختم کر دیا تھا تاکہ پرائیویسی محفوظ رہ سکے۔ اب لوگ ہو کین لک میں اپ سیٹنگز کنٹرولز سے اپنے فون نمبر یا ای میل ایڈریس کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔

بشکریہ ڈان نیوز

فیس بک کو لاکھوں صارفین کے ڈیٹا چوری پر ایک ارب ڈالر جرمانہ ہو سکتا ہے

فیس بک کو اپنے صارفین کی پرائیویسی کے تحفظ میں ناکامی کی وجہ سے ایک ارب ڈالر سے زیادہ کے جرمانے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ واشنگٹن ڈی سی کے اٹارنی جنرل نے کہا ہے کہ امریکی دارالحکومت نے فیس بک کمپنی کے خلاف اپنے صارفین کو مبینہ طور پر ڈیٹا کے تحفظ کے متعلق غلط معلومات فراہم کرنے پر مقدمہ دائر کر دیا ہے۔ فیس بک کو صارفین کے تحفظ سے متعلق قانون کی ہر خلاف ورزی پر 5000 ڈالر جرمانہ ہو سکتا ہے۔ اگر عدالت تمام متاثرہ صارفین کو ادائیگی کا حکم دیتی ہے تو یہ رقم ایک ارب 70 کروڑ ڈالر تک پہنچ سکتی ہے ۔  مقدمے میں الزام لگایا گیا ہے کہ یہ ڈیٹا کوئز کے ایک سافٹ ویر کے ذریعے چوری کیا گیا۔ یہ سافٹ ویر واشنگٹن ڈی سی کے 3 لاکھ 40 ہزار صارفین کے پاس تھا، لیکن اس سے صرف 852 مقامی صارف متاثر ہوئے۔

ادھر یورپی حکام نے بھی حال ہی میں یہ اعلان کیا ہے کہ وہ اس بارے میں تحقیقات کر رہے ہیں کہ کمپنی اپنے صارفین کی پرائیویسی کا تحفظ کرنے میں کیوں ناکام ہوئی۔ میڈیا چینل سی این این نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ آئرش ڈیٹا پروٹیکشن کمیشن نے تصدیق کی ہے کہ اس نے ڈیٹا کی چوری سے متعلق کئی شکائتیں ملنے کے بعد یورپی قوانین کے تحت فیس بک کمپنی کی تفتیش شروع کر دی ہے۔ تفتیش سے متعلق خبریں فیس بک کی جانب سے اس اعلان کے بعد آئی ہیں جس میں کہا گیا تھا کہ اس کے لگ بھگ 68 لاکھ صارفین کی تصویریں تک ہیکرز نے رسائی حاصل کر لی تھی۔

ڈیٹا چوری کا انکشاف اس وقت ہوا جب ستمبر میں کمپنی نے یہ اعلان کیا کہ یہ فیس بک کی تاریخ میں سیکیورٹی سسٹم کو توڑ کر اس کے اندر گھسنے کا سب سے بڑا واقعہ ہے۔ فیس بک کے خلاف تحقیقات آئرش ڈیٹا ریگولیٹر کو جنرل ڈیٹا پروٹیکشن ریگولیشن (جی ڈی پی آر) کے نئے اختیارات ملنے کے بعد شروع ہوئیں ہیں جن کا اطلاق یورپی یونین نے مئی میں کیا تھا۔ آئرلینڈ کی جانب سے تحقیقات شروع کیے جانے کی وجہ یہ ہے کہ فیس بک کا یورپی ہیڈ کوارٹرز ڈبلن میں ہے، چنانچہ جی ڈی پی آر کے تحت ڈیٹا چوری کا علم ہونے کے بعد اس کی اطلاع 72 گھنٹوں کے اندر آئرش ڈیٹا ریگولیڑ کو دینا ضروری تھا۔

جو کمپنیاں جی ڈی پی آر کے ضابطوں پر عمل کرنے میں ناکام رہتی ہیں انہیں زیادہ سے زیادہ دو کروڑ 30 لاکھ ڈالر یا دنیا بھر میں کمپنی کے سالانہ محصولات کی آمدنی کے 4 فی صد تک، ان دونوں میں جو بھی زیادہ ہو، جرمانہ ہو سکتا ہے۔ جہاں تک فیس بک کا معاملہ ہے تو اسے 2017 میں لگ بھگ 40 ارب ڈالر کی آمدنی ہوئی تھی، جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر 2018 میں بھی اس کی آمدنی یہی رہتی ہے تو اسے ایک ارب 60 کروڑ ڈالر تک کا جرمانہ ہو سکتا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ستمبر میں ہیکرز کو لاکھوں صارفین کی تصویروں تک 12 دن کے لیے رسائی حاصل رہی۔

فیس بک کو سیکیورٹی سسٹم میں شگاف کا علم ستمبر میں ہی ہو گیا تھا لیکن اس نے دو مہینوں کے بعد یورپی ریگولیٹر کو اس کی اطلاع دی۔ فیس بک کا کہنا ہے کہ اطلاع کرنے میں تاخیر کا سبب یہ تھا کہ کمپنی یہ تعین کر رہی تھی کہ آیا یہ ڈیٹا چوری کا یہ واقعہ اس دائرے میں آتا ہے جس کی اطلاع دینا ضروری ہے ۔  کمیونیکشن سے متعلق ریگولیٹر اتھارٹی کے سربراہ گراہم ڈئیل نے کہا ہے کہ آئرش ڈیٹا کمیشن نے فیس بک کی جانب سے سیکیورٹی سسٹم میں شگاف کی کئی نوٹیفیکشن ملنے کے بعد تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ فیس بک کا کہنا ہے کہ ہم آئرش ڈیٹا پروٹیکشن کمشن کے ساتھ قریبی رابطے میں ہیں اور کسی بھی سوال کا بخوشی جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔

بشکریہ روزنامہ ڈان اردو

فیس بک یا فیک بک

فیس بک مشہور ترین سوشل ویب سائٹ ہے جہاں روزانہ کروڑوں لوگ آپس میں رابطہ کرتے ہیں، تصاویر لگاتے ہیں اور اپنے دل کی باتیں سٹیٹس کی صورت میں لگاتے ہیں۔ اس سے دوسرے ممالک میں مقیم رشتے داروں اور دوست احباب سے بات کر لی جاتی ہے اور انہیں دیکھ لیا جاتا ہے۔ فیس بک کی کچھ اچھی خصوصیات ہونے کے باوجود بھی اس کے نقصانات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، جہاں فیک یا جعلی آئی ڈیز کی بھرمار ہے۔ لڑکے لڑکیوں کے نام سے آئی ڈیز بنا کر لڑکیوں سے دوستی کر لیتے ہیں اور لڑکیاں کسی اور نام سے اپنی شناخت کرواتی ہیں۔

ان لوگوں کو متاثر کرنے کیلئے جن کو جانتے بھی نہیں اپنی تصاویر لگا دی جاتی ہیں، اس حقیقت کو جانتے ہوئے بھی کہ ان کا غلط استعمال بھی کیا جاسکتا ہے۔ دوست، رشتے دار اور خون کے رشتے موجود ہونے کے باوجود فیس بک پر ان رشتوں کی تلاش جاری رہتی ہے۔ اپنے اصل رشتوں کو وقت دینے کی بجائے اجنبی لوگوں کو اپنا سارا وقت دے کر برباد کر دیا جاتا ہے۔ روزانہ صبح آنکھ کھلتے ہی سب سے پہلے فیس بک کھول کر دیکھی جاتی ہے کہ نئی لگنے والی تصویر پر کتنے کمنٹس آئے ہیں اور کتنے لوگوں نے اسے پسند کیا ہے۔ لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ رشتے جو آپ کی توجہ کے منتظر ہیں ان کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ فیس بک کا استعمال کم کر کے اپنے حقیقی رشتوں کو وقت دیا جائے۔

مناحل عثمان

ایک کروڑ 40 لاکھ فیس بک صارفین کی خفیہ پوسٹس عام ہو گئیں

دنیا کی سب سے بڑی سوشل ویب سائٹ فیس بک پر گزشتہ کئی ماہ سے پرائیویسی پالیسی اور صارفین کے ڈیٹا کا تحفظ نہ کرپانے کے حوالے سے تنقید کی جا رہی ہے۔ حال ہی میں جہاں فیس بک نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اس نے صارفین کا ذاتی ڈیٹا موبائل بنانے والی 60 کمپنیوں کو فراہم کیا، وہیں اب سماجی ویب سائٹ کی ایک بہت خرابی سامنے آگئی۔ جی ہاں فیس بک نے انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ ماہ مئی میں دنیا بھر کےایک کروڑ 40 لاکھ فیس بک صارفین کی ایسی خفیہ پوسٹیں از خود عام ہو گئیں جنہیں صارفین نے ’پبلک‘ نہیں کر رکھا تھا۔

فیس بک انتظامیہ کی جانب سے اپنے وضاحتی بیان میں کہا گیا کہ سماجی ویب سائٹ پر خود کار سافٹ ویئر کی خرابی کی وجہ سے دنیا بھر کے ایک کروڑ 40 لاکھ صارفین کی محدود پوسٹس از خود پبلک ہو گئیں، جس وجہ سے کئی صارفین کی خفیہ معلومات بھی عام ہو گئیں۔ بیان میں کہا گیا کہ سافٹ ویئر میں خرابی کا پتہ چلنے کے بعد کمپنی نے اس خرابی کو دور کر دیا، ساتھ ہی کمپنی نے متاثرہ افراد کو خصوصی پیغامات کے ذریعے آگاہ کرنے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا۔ بیان کے مطابق کمپنی نے متاثرہ افراد سمیت اپنے عام صارفین کو بھی اپنی پرائیویسی پالیسی پر نظر ثانی کی تجاویز دی ہیں، تاکہ صارفین کی معلومات اور پوسٹس کو زیادہ سے زیادہ خفیہ رکھا جا سکے۔ کمپنی نے یہ وضاحت نہیں کی کہ سافٹ ویئر کی خرابی سے کن ممالک کے صارفین کی محدود پوسٹس عام ہوئیں اور ایسی پوسٹس میں کس طرح کا مواد شامل ہے۔

بند فیس بک ایپ بھی کان رکھتی ہے، اپنے رازوں سے دور ہی رکھیں

بلاشبہ سوشل میڈیا نے دنیا کو گلوبل ویلیج کی صُورت دے دی ہے، کیوں کہ اِس نے ایک دوسرے سے ہزاروں میل دُور بسنے والوں کو آمنے سامنے بٹھا دیا ہے۔ اس ٹیکنالوجی نے جہاں ہمیں بہت سی سماجی، تعلیمی اور معاشی سہولتیں فراہم کی ہیں‘ وہیں اُس کے کچھ نقصانات بھی سامنے آ رہے ہیں۔ فیس بُک ہی کو دیکھ لیجیے، اس نے ایک’’ عالمی برادری‘‘ تو تشکیل دی، جس کے ذریعے ہم بہت سے فوائد سمیٹ رہے ہیں، لیکن اس کے نقصانات بھی کچھ کم نہیں۔ سب سے خطرناک بات جو سامنے آئی کہ فیس بُک سے لوگوں کی پرائیویسی ختم ہو کر رہ گئی ہے۔

آئی ٹی ایکسپرٹس کا کہنا ہے کہ’’ فیس بُک انتظامیہ کی جانب سے ابھی تک ایسی کوئی سہولت فراہم نہیں کی گئی، جس سے لوگوں کی نجی زندگی مکمل طور پر محفوظ ہو۔ اگر ہم پرائیویسی سے متعلق فیچر بند کریں، تو فیس بُک اکائونٹ ہی بند ہو جاتا ہے۔‘‘ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ ایک بار فیس بُک ایپلی کیشن ڈائون لوڈ کرنے کے بعد، فیس بُک انتظامیہ ہر نوعیت کی بات چیت ریکارڈ کر سکتی ہے اور یوں اسے اہم مُلکی رازوں تک رسائی کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ فیس بُک کے اس آپشن کے ذریعے جرائم ،خاص طور پر دہشت گردی کو ختم کرنے میں مدد مل سکتی ہے، مگر اس سب کچھ کے باوجود، حقیقت یہی ہے کہ فیس بُک نے انسان کی پرائیویسی کو داؤ پر لگا دیا ہے۔
ماہرین کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ اگر آپ کا فیس بُک اکائونٹ لاگ اِن نہ ہو، تب بھی یہ ریکارڈنگ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، کیوں کہ آپ کے موبائل فون میں فیس بُک کی ایپلی کیشن تو ڈائون لوڈ ہے اور اس ڈائون لوڈنگ کے لیے آپ نے جن قواعد و ضوابط کو قبول کیا تھا، اُن میں گفتگو ریکارڈ کرنے کی اجازت بھی شامل تھی۔ سو، فیس بُک انتظامیہ جب چاہے، آپ کی باتیں سُن سکتی ہے اور اُسے ایسا کرنے کی اجازت آپ نے خود دی ہے، لہٰذا آپ اس کے خلاف کوئی قانونی کارروائی بھی نہیں کر سکتے۔ بس یہی ہو سکتا ہے کہ جب تک گفتگو کی ریکارڈنگ کا کوئی توڑ سامنے نہ آئے، آپ فیس بُک کے استعمال میں احتیاط کریں اور اپنے’’ رازوں‘‘ کو اس سے دُور ہی رکھیں۔

حنا شہزادی

کیا فیس بک پر آپ کی فون کالز اور ٹیکسٹ میسجز محفوظ ہیں ؟

فیس بک صارفین کے لیے ایک اور بری خبر ہے کہ فیس بک اینڈروئیڈ فونز استعمال کرنے والے صارفین کی فون کالز اور ٹیکسٹ پیغامات کا ڈیٹا بھی جمع کر لیتی ہے۔ بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق کیمبرج اینالیٹکا اسکینڈل میں پھنسی فیس بک کے لیے ایک نئی پریشانی کھڑی ہو گئی۔ فیس بک کو اب اینڈروئیڈ فونز پر فیس بک استعمال کرنے والے صارفین کی فون کالز اور میسیجز کا ڈیٹا جمع کرنے کے الزام کا بھی سامنا ہے۔ ان الزامات کا انکشاف اس وقت ہوا ہے جب فیس بک نے صارفین کا ڈیٹا بلا اجازت استعمال کرنے کا اعتراف کیا۔

فیس بک کے بانی مارک زکربرگ کی جانب سے گزشتہ روز امریکا اور برطانیہ کے اخبارات میں ایک صفحے کا معافی نامہ چھپوایا گیا۔ اس کے بعد کچھ صارفین نے سوشل میڈیا پر اپنا ڈیٹا اپ لوڈ کیا جس میں دیکھا گیا کہ اینڈروئیڈز فون استعمال کرنے والے صارفین کے فون کالز کا ریکارڈز بشمول تاریخیں، وقت، کال کا دورانیہ، کال کرنے والے فرد کا نام اور فون نمبرز وغیرہ تک کا ڈیٹا فیس بک جمع کر لیتی ہے۔

فیس بک انتظامیہ نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے بتایا کہ ایسا صرف اُن صارفین کے ساتھ ہو سکتا ہے جنہوں نے اینڈروئیڈ جیلی بین (ورژن 4.1) استعمال کیا ہو جس کےلیے فیس بک پہلے آپریٹنگ سسٹم میں فون کونٹیکٹس تک رسائی کے ساتھ کال اور ٹیکسٹ لاگز تک بھی رسائی کی اجازت مانگتی تھی۔ اجازت ملنے کے بعد رسائی حاصل کر لی جاتی تھی تاہم چند سال بعد اس آپشن کو ختم کر دیا گیا تھا لیکن تب تک جن افراد کا ڈیٹا جمع کیا چکا تھا اسے ختم نہیں کیا جا سکا ۔  واضح رہے کہ کوئی بھی صارف اپنے فیس بک اکاؤنٹ کی سیٹنگز میں جا کر ’جنرل‘ میں موجود آخری آپشن ’ڈاﺅن لوڈ اے کاپی آف یور فیس بک ڈیٹا‘ پر کلک کر کے فیس بک کی جانب سے صارف کی جمع کی گئی معلومات کو دیکھ سکتا ہے۔

اب وقت آ گیا ہے #deletefacebook

فیس بک کو اس وقت کیمبرج اینالیٹکا کی وجہ سے بہت بڑے اسکینڈل کا سامنا ہے اور اس سماجی رابطے کی ویب سائٹ کو چھوڑنے کی مہم بھی اس وقت ٹوئٹر پر زور و شور سے چل رہی ہے۔ مگر فیس بک نے کبھی سوچا بھی نہیں ہو گا کہ اس مہم میں ایسا شخص شامل ہو جائے گا، جسے اس ویب سائٹ کی بدولت اربوں ڈالرز کا فائدہ ہوا۔ جی ہاں اس وقت چل رہی مہم میں شامل بیشتر افراد وہ ہیں جنھیں فیس بک کی آمدنی سے چند ارب ڈالرز کمانے کا موقع اس طرح نہیں ملا جس طرح واٹس ایپ کے شریک بانی برائن ایکٹن کو ملا تھا، جسے مارک زکربرگ کی کمپنی نے 2014 میں 19 ارب ڈالرز یا 19 کھرب پاکستانی روپے سے زائد میں خریدا تھا۔ گزشتہ سال فیس بک سے الگ ہو جانے والے برائن ایکٹن نے گزشتہ روز ٹوئیٹ کیا جس پر لکھا تھا اب وقت آگیا ہے #deletefacebook ۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ فیس بک کی وجہ سے برائن ایکٹن ارب پتی بن گئے تھے مگر اب وہی اپنے ٹوئٹر فالورز کو کہہ رہے ہیں کہ فیس بک اکاﺅنٹ ڈیلیٹ کر دیں۔
ساڑھے 6 ارب ڈالرز کے مالک برائن ایکٹن نے اس حوالے سے مزید کچھ نہیں کہا جبکہ واٹس ایپ کے عہدیداران نے بھی اس پر بات کرنے سے انکار کیا ہے۔
گزشتہ سال برائن ایکٹن نے ایک میسجنگ ایپ سگنل میں 5 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کی جو کہ واٹس ایپ کے متبادل کے طور پر خود کو پیش کرتی ہے۔

اس وقت فیس بک کو گزشتہ دنوں سامنے آنے والے اسکینڈل پر امریکا اور یورپ میں تفتیش جبکہ حصص کی قیمت میں نمایاں کمی کا سامنا ہے۔ برائن ایکٹن کو آن لائن دنیا میں صارف کی پرائیویسی کے حامی کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یہ پہلی بار نہیں کہ فیس بک سے الگ ہونے والے کسی عہدیدار نے اس کے خلاف بات کی ہو مگر یہ اعلیٰ ترین عہدے پر رہنے والی پہلی شخصیت ضرور ہیں جو کہ فیس بک کے لیے شرمندگی کا باعث بنا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ برائن ایکٹن نے اس ٹوئیٹ کے بعد اپنی فیس بک پروفائل بھی ڈیلیٹ کردی ہے۔

فیس بک کی تاریخ میں سب سے بڑی چوری

امریکی اخبار کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کی ڈیٹا اینالسس کمپنی نے کروڑوں فیس بک صارفین کا ڈیٹا بغیر بتائے صدارتی مہم میں استعمال کیا، خبریں سامنے آنے پر فیس بک نے اینالسس کمپنی کا اکاؤنٹ معطل کر دیا۔ لاکھوں فیس بک صارفین کا ڈیٹا بتائے بغیر امریکی صدارتی انتخاب میں استعمال ہونے کا انکشاف نیویارک ٹائمز اور لندن آبزرور نے اپنی رپورٹ میں کیا۔ رپورٹ کے مطابق صدر ٹرمپ کی اینالسس فرم کیمبرج اینالیٹکا نے پانچ کروڑ سے زائد صارفین کی ذاتی معلومات ایک ایسے سافٹ ویئر بنانے میں استعمال کیں جس کے ذریعے سے صدارتی انتخابات میں ووٹرز کا رجحان بتانے اور انتخابی نتائج سے متعلق پیش گوئیاں کی جاتی تھیں۔ اینالسس فرم کی ڈیٹا چوری کو فیس بک کی تاریخ کی سب سے بڑی ڈیٹا چوری کہا جا رہا ہے۔